پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ کو گيارہ ماہ بعد رہائي ملي تو اس کي آنکھوں سے خوشي کے آنسو جاري ہوگۓ۔ بارڈر پر اس کے ملک کے آفيسر نے اس کي دلجوئي کي ہرممکن کوشش کي۔ يہاں تک کہ اسے کھانے، کراۓ اور کپڑوں کي بھي پيشکش کي کيونکہ پوليس والے اسے جيل کي وردي ميں ہي چھوڑ کر چلے گۓ تھے اور اس کے گھر سے منگواۓ ہوۓ کپڑے تک اسے پہننے نہيں ديۓ۔ بارڈر آفيسر کو اپني بپتا سناے ہوۓ وہ اتنا رويا کہ اس کي ڈھارس بندھ گئ۔
اسے ابھي رات کي شفٹ ختم کرکے سوۓ ہوۓ ايک گھنٹہ بھي نہيں ہوا تھا کہ صبح پانچ بجے اس کے دروازے پر دستک ہوئي۔ وہ اپني بلڈنگ کي سيڑھيوں سے نيچے اترا تو اس کي ملاقات ايک اميگريشن آفيسر سے ہوئي۔ اس نے ايک آدمي کا پوچھا جو اس کے ايڈريس پر پہلے رہتا تھا۔ اس نے انہيں کہا کہ وہ وہ نہيں جس کي انہيں تلاش ہے۔ اس نے اسے اوپراس کے اپارٹمنٹ ميں جانے کي اجازت مانگي اور ساتھ ہي تين اور آفيسر اس کے پيچھے اس کے اپارٹمنٹ ميں داخل ہوگۓاور گھر کي تلاشي لينا شروع کردي۔ اس نے جب انہيں باور کرايا کہ وہ بناں وارنٹ کے اس کے گھر کي تلاشي نہيں لے سکتے تو وہ غصے ميں آگۓ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھي کرسکتے ہيں۔ جب اس نے کہا کہ وہ ٩١١ پر کال کرنے لگا ہے تو انہوں نے کہا کہ ٩١١ وہي ہيں۔ اس نے انہيں اپنے ليگل ہونے کا ثبوت دکھايا مگر وہ نہ مانے۔ پھر اس نے انہيں کہا کہ ان کے پاس اگر وارنٹ ہے تو دکھائيں۔ يہ سنتے ہي انہيں غصہ آگيا اور کہنے لگے کہ ہم سے ٹکر نہ لو پچھتاؤ گے۔
انہوں نے اس کا سٹيٹس چيک کرنے کيلۓ اپنے دفتر فون کيا تو پتہ چلا کہ اس کا کيس پينڈنگ ہے اور ابھي تک کہيں کوئي جھول نہيں ہے۔ پھر انہوں نے دفتر والوں سے کہا کہ کچھ بھي کرو اور اس کے خلاف کچھ نکالو۔ انہيں بتايا گيا کہ ١٩٩٨ ميں ايک دفعہ اسے ڈي پورٹ کيا گيا تھا۔ يہ سنتے ہي انہوں نے فون بند کرديا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ جب اس نے بناں وارنٹ کے جانے سے انکار کيا تو انہوں نے اسے بہلانا پھسلانا شروع کرديا۔ اسے کہا کہ اس کے فنگر پرنٹ چيک کرنے ہيں اور اگر کوئي کريمينل ريکارڈ نہ نکلا تو اسے چھوڑ ديں گے۔ اس نے کافي بحث کي مگر سواۓ انہيں سيخ پا کرنے کے کچھ نہ کر سکا۔ آخرکار وہ اسے ساتھ لے گۓ۔
يہيں سے اس کي بدنصيبي شروع ہوتي ہے۔ اسے لاکر ميں بند کرديا گيا اور اگلے دن جيل بھيج ديا گيا۔ اس کي ايک سفارش نے اسے دس ہزار کے بانڈ پر رہائي دلوانے کي کوشش کي مگر وہ اپني بےگناہي کي وجہ سے بناں بانڈ کے رہا ہونے کي ضد کرنے لگا۔ تين ہفتے بعد جب اسے جيل ميں بچوں کي فکر نے ستايا تو وہ دس ہزار کے بانڈ پر نکلنے کيلۓ تيار ہوگيا مگر تب دير ہوچکي تھي اور انہوں نے اسے بانڈ پر رہا کرنے سے انکارکر ديا۔
اسے جيل ميں ہي ايک نوٹس ملا کہ اس کا منظور شدہ کيس دوبارہ کھول ديا گيا ہے اور اسے مزيد ثبوت دينے کا کہا ہے۔ اسنے کہا کہ وہ جيل ميں رہ کر ثبوت مہيا نہيں کر سکتا۔ مگر انہوں نے اس کي ايک نہ ماني اور اس کا پہلے سے منظور شدہ کيس ريجيکٹ کرديا۔ اس کے بعد بھي اسے جيل سے رہائي نہ ملي۔ وہ يہي بہانہ کرتے رہے کہ ابھي تمہارابيک گراؤنڈ چيک ہورہا ہے۔
ايک دن پتہ نہيں ان کے دل ميں کيا خيال آيا کہ اسے گاڑي ميں بٹھايا اور سرحد پر چھوڑ گۓ۔ جاتے ہوۓ وہ اسے کہ گۓ کہ ہم نے تمہيں کہا تھا کہ ہم سے پنگا نہ لو۔ يہ بھي بڑا ڈھيٹ نکلا کہنے لگا ميں بھي تمہيں ديکھ لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ واپس آؤ گے تو ديکھو گے ۔ اس نے کہا ميں باہر رہ کر بھي آپ کے خلاف مقدمہ لڑوں گا۔
اس گيارہ ماہ کي قيد نے اس کي ياداشت پر کافي برا اثر چھوڑا ہے۔ اب وہ کافي باتيں بھولنے لگا ہے۔ اس کي قيد کے دوران اس کي انپڑھ بيوي نے پانچ بچوں کو کيسے سنبھالا يہ الگ داستان ہے۔
اپنے منہ پھٹ ہونے کي اس نے اتني لمبي سزا بھگتي مگر ابھي بھي ہار نہيں مان رہا۔ اب وہ ہيومن رائٹس والوں سے بات کر رہا ہے اور اميگريشن والوں کو جينيوا کنوينشن کے کسي قانون کے حوالے سے مقدمے میں پھنسوانے کي تيارياں کر رہا ہے۔ اس کے دوستوں نے اسے کافي سمجھانے کي کوشش کي ہے کہ يہ وقت مسلمانوں کيلۓ اچھا نہيں ہے اور تمہاري کوئي نہيں سنے گا مگر وہ بضد ہے کہ اپنے حق کيلۓ ضرور لڑے گا۔
No user commented in " منہ پھٹ بدنصيب "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply