پہلے عاصمہ جہانگير کے کمرے کي تلاشي لي گئ اور پھر اس کے بعد تلاشي پر نہيں بلکہ اس تلاشي کي وجہ سے ہونے والي تکليف پر بھارتي وزيرِ اعظم نے معزرت کرلي۔ عقل کے اندھو اس طرح کا کام کرنے سے پہلے ذرا سوچ تو ليتے کہ آپ کو عاصمہ ہي دہشت گرد نظر آئي تھي اور تمہيں پورا يقين تھا کہ وہ ضرور ہائي الرٹ کے دوران کوئي بم چلا دے گي۔

 پہلے تو جب عصمہ بھارت گئ ہوں گي تب ائرپورٹ پر ان کا سامان چيک ہوا ہو گا پھر ان کے قيام کے دوران ان کي نگراني کي گئ ہوگي اور اس کے بعد جب نگراني پر معمور اپني ہي پوليس پر شک ہوا ہوگا تو پھر پوليس افسروں نے ان کے کمرے کي تلاشي لے لي۔ بات يہيں تک موقوف نہیں بلکہ ان کے کمرے ميں بيٹھے دو معزز مہمانوں سے بھي پوچھ گچھ کي اور ان کے کمروں کي بھي تلاشي لي گئ۔

بس اب يہي کچھ ہوتا رہے گا اس روشن خيال حکومت کے دور ميں۔ ان کے وزيروں کے کپڑے اور جوتے يورپ اترواتا رہے گا اوربچ جانے والوں کي بھارت خبر ليتا رہے گا۔ اس سے تو يہي لگتا ہے کہ ہمارا اب کوئي والي وارث نہيں ہے۔ جسے چاہو پکڑ کر لے جاؤ اور جس کو چاہو جہاں چاہو ذليل کرلو۔

مجال ہے جو ہماري حکومت نےاس نازيبا حرکت پر کوئي عملي قسم اٹھايا ہو۔ بس زباني کلامي بات ہوگي اور پھر سب اپني جيبيں بھرنے ميں مصروف ہوجائیں گے۔ ہماري حکومت سے تو ہيومن رائٹس کا ہندو اچھا رہا جس نے اس بات پر حکومت کي مزمت کي۔