صدرِ پاکستان نے این آر او کو اسمبلی میں نہ لانے کا آرڈر دے کر عوام کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ یعنی عوام اب سوچ رہے ہیں کہ حکومت نے کیا سوچ کر ایسا کیا؟ کیا حکومت کو یقین ہو گیا ہے این آر او کی موت اس کی موت نہیں ہو گی؟ کیا سپریم کورٹ کے این آر او کی موت کی تصدیق کے بعد حکمرانوں کے مقدمات ہوا میں لٹکے رہیں گے؟ کیا اس شکست کے بعد صدر زرداری کا جانا لکھا جا چکا ہے؟
ان سب سوالوں کے جوابات آنے والا وقت دے گا مگر ہماری قیاس آرائی ہے، حکومت کو یقین ہے کہ این آر او کی موت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ وہ حکومت کرتے رہیں گے کیونکہ ان پر ہما کا سایہ ہے۔ این آر او کو اسمبلی میں پیش نہ کر کے حکومت نے وقتی طور پر اس مسئلے سے گلوخلاصی کرا لی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے نمبر بنا لیے ہیں اور مسلم لیگ ن اور ق نے اپنے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد صدر زرداری کی یہ دوسری بڑی شکست ہے۔ وہ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ پہلی شکست نے ان کی حکومت نہیں گرائی تو دوسری شکست کیسے گرائے گی۔
ویسے تمام میڈیا اینکرز اور کالم نگار کافی عرصے سے اسلام آباد میں تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ صدر زرداری عہدہ صدارت سے ایسے ہی الگ ہو جائیں گے جس طرح امریکہ میں سفیر حسین حقانی الگ ہوں گے۔ مگر کب؟ یہ وہی جانتے ہیں جن کے حکم سے دونوں حضرات اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
8 users commented in " این آر او پر حکومت کی نئی سٹریٹیجی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہر عہدیدرار کیساتھ یہی سلوک رہا ہے۔ پہلے خود ووت دیکر سر پر چڑھانا، پھر گالیاں دیکر نیچے اتروانا!
ہو سکتا ہے کہ این آر او کو پیش نہ کرنا ایک چال ہو کہ گرما گرمی کم ہونے پر ایک دن جب حذبِ مخالف کی حاضری قومی اسمبلی میں کم ہو تو اچانک پیس کر کے منظور کروا لیا جائے
تو اب حزب مخالف یہ چال چلے گی اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کے لیئے!
http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/04-11-2009/col4.htm
نون لیگ اب اپنا کھیل کھیلے گی یعنی اب این آر او کے خلاف قرارداد لائے گی۔
حکومتی اقدام سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ این آر او کوئی معمولی نوعیت کا قانون نہیں بلکہ اس کے پیچھے درحقیقت بڑوں بڑوں کے راز چھپے ہیں۔ اپوزیشن کو رکھیں ایک طرف حکومت کو تو اس وقت سے زیادہ خطرہ خود اپنے ہی اتحادیوں سے محسوس ہورہا ہے جن میں ایم کیو ایم سرفہرست ہے۔
این آر او پارلیمان میں لاکر اگر کسی طرح پاس کروابھی لیا جائے تو جو بدنامی اس حکومت کے حصہ میں آچکی ہے، وہ دوگنی ہوجائے گی۔ دوسری طرف عدلیہ کی طرف سے بھی کسی قسم کی امید نہیں۔ تو اس تمام صورتحال میں صرف ایک ہی راستہ موجود ہے اور وہ ہے متبادل آرڈیننس کا۔
ممکن ہے صدر زرداری اختیارات استعمال کرتے ہوئے بذریعہ آرڈیننس اس قانون کے خاتمہ کی تاریخ کو مزید آگے بڑھادیں یا پھر کوئی ایسا آرڈیننس پیش کردیا جائے جس کے بعد مشرف دور کے تمام آرڈیننسز کو یک جنبش قلم قانون و آئین کا حصہ بنادیا جائے۔
بہرحال آئندہ کے چوبیس دنوں میں ایسے کئی اقدامات اور واقعات سامنے آئیں گے کہ جس سے عوام کی نظریں این آر او سے ہٹ کر دوسری طرف چلی جائیں۔
اسد صاحب
آپ کا تبصرہ جاندار ہے۔ آپ تو خاصے جہاں دیدہ لگتے ہیں۔
http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/05-11-2009/col14.htm
Leave A Reply