بچپن میں بہن بھائی آپس میں لڑ پڑتے اور جب ایک دوسرے کو کہتا کہ کل جب والدین نےاسے سبزی خریدنے کیلیے بازار بھیجا تو اس نے جو ایک روپیہ کمیشن رکھا وہ والدین کو اس کے بارے میں بتا دے گا۔ دوسرا جواب میں کہتا اگر تم نے میرے بارے میں بتایا تو وہ اس کے بارے میں بھی بتا دے گا اور ساتھ ہی یاد دلاتا کہ تین دن قبل اس نے بھی والد صاحب کی جیب سے آٹھ آنے چوری کر کے گونگے کی ریڑھی سے کلفی کھائی تھی۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوتی اور دونوں چور ایک دوسرے کے راز اپنے تک محدود رکھنے پر راضی ہو جاتے۔

اسی طرح جب دوستی یاری میں ایک دوست دوسرے کو تیسرے کے راز بتاتا اور پھر جب ان کے درمیان لڑائی ہوتی تو وہ راز تیسرے کو بتانے کی دھمکی دیتا مگر جب پہلا دوست اس کے جواب میں ایسا ہی راز فاش کرنے کی دھمکی دیتا تو دوسرا دوست جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا۔

یہ عادت پکی ہوجاتی ہے اور بڑے ہو کر جب بہن بھائی اپنے سالوں، دیوروں، نندوں اور بھابیوں کے راز افشا کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو دونوں فریق خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دھمکیاں اتنی کارگر ثابت ہوتیں ہیں کہ سالوں سال یہ راز راز ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے ایسے حساس خاندانی راز مرتے دم تک راز رہتے ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے سے قیامت برپا ہو سکتی تھی۔

یہی عادت حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ایکپریس کی خبر کیمطابق ہمارے کرپٹ وزیر داخلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے این آر او کے تحت بند ہونے والے کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولے گئے تو وہ دوسروں کے راز بھی فاش کر دیں گے۔ امید ہے ان کی یہ دھمکی کارگر ثابت ہو گی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ابھی تک کرپشن میں نہ کوئی وعدہ معاف گواہ بنا ہے اور نہ ہی کسی نے اپنی قربانی دے کر پاکستان کی دولت لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔

ویسے ہونا تو اب یہ چاہیے کہ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے کر رحمن ملک کو عدالت میں طلب کرے اور انہیں ایسے رازوں سے پردہ اٹھانے کا حکم دے جن کی وجہ سے بہت سارے کرپٹ چہرے ننگے ہو جائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ سپریم کورٹ سے زیادہ طاقتور قوت رحمن ملک کیساتھ ہے۔