صحيح سسٹم کا نفاذ – حصہ اول

باب اٹھارہ سے جنرل پرويز صاحب اپني حکومت اور اس کے فوائد ايک ايک کرکے گنوانا شروع کرديتے ہيں۔ باب اٹھارہ ميں وہ اپني فوجي کم جمہوريت کے ارتقا کي بات کرتےہيں اور بتاتے ہيں کہ انہوں نے سسٹم کس طرح نافذ کيا۔

سب سے پہلے پرويز صاحب کہتے ہيں کہ جب انہوں نے ديکھا کہ مارشل لاء اور جمہوريت دونوں پاکستان ميں فيل ہوچکے ہيں تو انہوں نے درميان کي راہ نکالي يعني نہ ہي مارشل لاء نافذ کيا اور نہ ہي جمہوريت بحال کي بلکہ درمياني راہ اپنا کر فوجي کم جمہوريت کا تجربہ شروع کيا جو بقول ان کے کامياب جارہا ہے۔

پرويز صاحب کہتے ہيں کہ ملک کي دوبڑي پارٹيوں پي پي پي اور مسلم ليگ نواز نے اپنے اندر جمہوريت نافذ نہيں کي اور يہ پارٹياں صرف شخصيت پرستي پر چل رہي ہيں۔ جب انہوں نے ديکھا کہ دو دو بار حکومت ميں آنے کے باوجود بينظير اور نواز شريف نے کرپشن سے ہي ہاتھ رنگے تو انہوں نے فيصلہ کرليا کہ وہ ان دونوں ليڈروں کو تيسري بار حکومت نہيں کرنے ديں گے۔

پرويز صاحب کے بقول انہيں بين الاقوامي اعتراضات دور کرنے کيلۓ ايک تو جمہوريت بحال کرني پڑے گي اور دوسرے انتخابات شفاف طريقے سے کرانے ہوں گے۔ اس کا مطلب ہم يہ لے سکتے ہيں کہ اگر بين الاقوامي دباؤ نہ ہوتا تو نہ ملک ميں نيم جمہوريت بحال ہوتي اور نہ اليکشن ہوتے۔

ان دو کاموں سے نپٹنے سے پہلے پرويز صاحب نے سوچا کہ ايک نئي پارٹي بنانا ضروري ہے تاکہ بينظير اور نواز شريف ملک سے باہر رہ کر بھي حکومت ميں دوبارہ آنے کي کوشش نہ کرسکيں۔

پرويز صاحب نواز شريف کے ملک بدر ہونے کا سارا الزام ان پر اور ان کے خاندان پر ڈالتے ہيں۔ کہتے ہيں کہ نواز شريف کے پاس دو راستے تھے۔ ايک يہ کہ وہ ملک ميں رہ کر کرپشن چارجز کا سامنا کرتے اور جيل کاٹتے يا پھر ملک بدر ہوجاتے۔ انہوں نے ملک بدري کو آساں جانا اور سعودي عرب کے فرمانرواہ کي مدد سے حکومت کيساتھ ڈيل کرلي۔ ہم نے نواز شريف کيساتھ سودا کيا اور دس سال کيلۓ انہيں ملک بدر کرکے سعودي بھيج ديا۔ پرويز صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہيں کہ شہباز شريف ملک بدري کے حق ميں نہيں تھےمگر نواز شريف اور اپنے والد مياں شريف کے دباؤ ميں آکر انہوں نے ملک بدري قبول کرلي۔

اس کے بعد نواز شريف پر ايک اور احسان جتاتے ہوۓ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ انہوں نے نواز شريف کي درخواست پر انہيں لندن جانے کي اجازت دي۔ نواز شريف کے معاہدے ميں يہ بھي شامل تھا کہ وہ کوئي سياسي بيان نہيں ديں گے اور نہ ہي سياست کے ميدان ميں اتريں گے مگر انہوں نے بدعہدي کي اور اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اس طرح انہوں نے ثابت کيا کہ وہ ناپختہ کردار کے مالک ہيں،۔ انہوں نے اپني جلاوطني سے کچھ بھي نہيں سيکھا اور وہ سياسي اور ذہني طور پرابھی تک پھل پھول نہيں سکے۔

پرويز صاحب کو سياسي پارٹي کي ضرورت تھي اسلۓ انہوں نے اپنے بااعتماد دوست طارق عزيز کي ڈيوٹي لگائي کہ وہ ان کي مدد کريں۔ ايک نئي پارٹي بنانے کي بجاۓ پرويز صاحب نے قائد اعظم کي مسلم ليگ کو شرفِ قبوليت بخشا جس نے ہميں آزادي دلائي۔ اچھا ہوتا اگر پرويز صاحب اپنے پيش رو جنرلوں ايوب اور ضيا کي تقليد کي بات کرديتے کيونکہ انہوں نے بھي اسي مسلم ليگ کے سہارے ملک پر ڈکٹيٹرشپ مسلط کۓ رکھي۔

طارق عزيز کے دماغ ميں پہلے سے يہ آئيڈيا تھا کہ مسلم ليگ نواز کو دوبارہ مسلم ليگ ق ميں بدل ديا جاۓ۔ ق انہوں نے قائد اعظم سے[ ان کي روح کو ثواب پہنچانے کيلۓ] ادھار ليا۔ يہيں پر پرويز صاحب چوہدري برادران کا ذکر کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ انہوں نے نواز ليگ کو ق ليگ ميں بدلنے کے خيال کي حمائت کي کيونکہ وہ نواز شريف کے عتاب کا شکار رہے مگر وہ اچھے آدمي تھے۔ پرويز صاحب اس تجويز پر راضي ہوگۓ۔ طارق عزيز نے انہيں پرويز صاحب سے ملوايا اور يہ بات ان کے کريڈٹ کو جاتي ہے کہ انہوں نے نواز ليگ کے بہت سارے ساتھيوں کو ق ليگ ميں شامل کرليا۔ اس طرح مسلم ليگ ق 20 اگست 2002 ميں لانچ کردي گئ۔

 پرويز صاحب چوہدري برادران کی مدد کا جو ذکر کیا ہے یہ تو موقع پرستي اور اپنے ليڈر سے غداري ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ چوہدري برادران بھي قرض نادہندہ تھے اور وہ بھي نيب کي زد ميں آسکتے تھے۔ اسلۓ انہوں نے خود غرضي دکھائي اور اپني جانيں بچانے کيلۓ غداري جيسي لعنت کو اپني زندگي کا ہميشہ کيلۓ حصہ بنا ليا۔

پرويز صاحب کہتے ہيں کہ 911 کے بعد کے فيصلوں کي وجہ سے ان کي مقبوليت عروج پر تھي اور وہ کسي سياسي پارٹي کا حصہ نہيں بننا چاہتے تھے اسلۓ انہوں نے انتخابات کا فيصلہ کرنے سے پہلے ريفرنڈم کرانے کا فيصلہ کر ليا۔ پرويز صاحب کو پہلے ہي معلوم تھا کہ وہ اپني مقبوليت کي وجہ سے ريفرنڈم جيت جائيں گے اور اس کے بعد ان کا اثرورسوخ مسلم ليگ ق کو زيادہ فائدہ پہنچاۓ گا۔ ان کے بہت سارے ساتھيوں نے اس خيال کي مخالفت کي مگر[ اپني خود سر طبيعت کي وجہ سے] پرويز صاحب نے کسي کی نہ سني اور ريفرنڈم کرانے کا پروگرام بنا ليا۔

ريفرنڈم کيلۓ انہوں نے سوال چننے کيلۓ جنرل ضيا کي تقليد کي اور اس طرح کا سوال ريفرنڈم ميں پوچھا گيا۔

 کيا آپ مقامي حکومتوں کي کاميابي، جمہوريت کے استحکام، ريفارمز کے تسلسل، فرقہ بندي اور انتہاپسندي کے خاتمے، قائد اعظم کي خواہشات کي تکميل کيلۓ آپ جنرل پرويز مشرف کو صدر کے عہدے کيلۓ پانچ سال کيلۓ منتخب کرتے ہيں؟

جنرل ضيا نے بھي کچھ اسي طرح کا ريفرنڈم کرايا تھا۔ اس ميں اس نے پوچھا تھا کہ اگر آپ ملک میں اسلام کو نافذ کرنے کے حامی ہيں تو پھر جنرل ضيا کو پانچ سال کيلۓ ملک کا صدر چن ليں۔

پرويز صاحب کہتے ہيں کہ ريفرنڈم بڑے پرامن ماحول ميں ہوا اور لوگوں کي بہت بڑي تعداد نے ريفرنڈم ميں حصہ ليا اور ميرے حق ميں ووٹ ڈالے۔ پرويز صاحب کا حوصلہ ريفرنڈم جيتنے کے بعد اور بڑھ گيا۔ وہ يہ بھي مانتے ہيں کہ ريفرنڈم ميں دھاندلي بھي ہوئي مگر وہ اسے اپني مقبوليت کے کريڈٹ ميں ليتے ہيں اورکہتے ہيں کہ لوگوں نے ان کي محبت ميں بيلٹ بکس ان کے ووٹوں سے بھر ديۓ۔

يہاں پر ہم یہ بتا دیں کہ يہ سچ نہيں ہے کہ لوگوں کي بہت بڑي تعداد نے ريفرنڈم ميں حصہ ليا۔  اس وقت کي ميڈيا کي رپورٹوں کے مطابق پانچ فيصد سے بھي کم لوگوں نے ريفرنڈم ميں حصہ ليا۔ جب صدر کے حاميوں نے پولنگ سٹيشن ويران ديکھے تو خود ہي بيلٹ بکس بھرنے شروع کرديۓ۔ يہ بات بھي ريکارڈ پر ہے کہ يہي حال جنرل ايوب اور جنرل ضيا کے ريفرنڈم کا ہوا تھا۔ اسطرح پاکستان کے عوام نے ڈکٹيٹرشپ کو مسترد کرنے کي اپني روائت کو برقرار رکھا۔