صوبہ سرحد کا نام قانونی طور پر تبدیل کرنے کا اے این پی کا دیرینہ خواب پورا ہونے والا ہے۔ لیکن نام بدلنے کیلیے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم سلیم سیف اللہ کی اس بات سے متفق ہیں کہ صوبہ سرحد کے چند نام تجویز کر کے ان کا ریفرنڈم کروانا چاہے تھا تا کہ صوبہ سرحد کے لوگ اپنے صوبے کا نام چنتے۔

پتہ نہیں اے این پی صوبہ سرحد کا نام پختونخوا رکھنے پر کیوں بضد رہی۔ کیا یہ پہلے ہی مشکل نام نہ تھا کہ مسلم لیگ ن نے خیبر کا اضافہ کر کے اس مزید مشکل بنا دیا۔ ہمارے خیال میں صوبہ سرحد کا نیا نام ذرا آسان ہونا چاہیے تھا اور اچھا سا نام منتخب کرنے کیلیے اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے اور لوگوں سے رائے لی جاتی۔ جو نام زیادہ آسان اور خوبصورت ہوتا اسے منتخب کر لیا جاتا۔

ویسے تو نام بدلنے سے صوبہ سرحد کی قسمت نہیں بدلنے والی۔ اگر نام بدلنے سے حالات بدل جاتے تو بہت سارے ملکوں، شہروں اور لوگوں کے حالات بدل جاتے۔ یہ طریقہ واردات اکثر مطلق العنان حکمران لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی وہ کوئی یادگار بنانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی بڑی عبادت گاہ، کبھی عوام کو کھیلوں میں مصروف کر دیتے ہیں اور کبھی لایعنی معاملات میں الجھا دیتے ہیں۔ اے این پی اگر سمجھدار اور مخلص ہوتی تو صوبے کے حالات بہتر کرتی، وہاں تعلیم عام کرتی، نئی آبادیوں کی پلاننگ کرتی، بجلی پیدا کرنے کی تراکیب سوچتی اور سب سے بڑھ کر اپنے صوبے سے دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش کرتی۔

دیکھ لیجیے گا صرف نام بدلے گا حالات نہیں بدلیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی عقل اور جرات ہے ہی نہیں کہ وہ عام آدمی کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکیں۔