ہمارے وزیرِداخلہ رحمان ملک کو جب ڈی این کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فوزیہ کے گھر نامعلوم افراد جو لڑکی چھوڑ گئے ہیں وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی ہے تو جھٹ سے انہوں نے اخباری کانفرنس کر چھوڑی۔ نہ تو انہوں نے اس بچی کو برآمد کرانے میں کوئی کردار ادا کیا؟ نہ انہوں نے بچی کو چھوڑ کر جانے والے افراد کا پتہ چلایا؟ نہ وہ اب تک ڈاکٹر عافیہ کیساتھ پکڑے جانے والے ان کے بیٹے سے نہ پوچھ سکے کہ وہ اور اس کی ماں حقیقت میں کہاں تھے؟ نہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کروا سکے؟  پتہ نہیں وہ اس طرح کس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جس طرح بچی کو خفیہ والے چپکے سے چھوڑ کر گئے ہیں اور جس طرح ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ بچی ڈاکٹر عافیہ کی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ رحمان ملک اس تمام کاروائی میں ملوث تھے اور اب ڈرتے ہوئے اس بات کا کریڈٹ نہیں لے رہے۔

اخباری اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ بچی کو اردو بولنی نہیں آتی اور وہ صرف انگریزی بولتی ہے۔ کچھ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بچی جان نامی شخص کے پاس رہی ہے۔ اتنی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں یہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں رہا کہ بچی کہاں رہی اور کس کے پاس رہی۔ اسی طرح ڈاکٹر عافیہ کسیاتھ ملنے والے بچے سے بھی ابھی تک حکومت کوئی معلومات اکٹھی نہیں کر سکی اور نہ ہی میڈیا میں اتنی جرات تھی کہ وہ بچے کو ٹی وی پر لاتے اور اس سے سچ پوچھتے۔ لگتا ہے اس سارے معاملے میں ملوث کوئی خفیہ طاقت ان معلومات کو خفیہ ہی رکھنا چاہتی ہے۔