مختاران مائي کےساتھ زيادني ہوئي اور ہم نے دکھاوے کے طور پر مجرموں کو سزا دے دي۔ پھر جب کورٹ نے انہيں بري کر ديا تو ہم نے دنيا کے ڈر سے انہيں دوبارہ اندر کرديا۔
پھر ڈاکٹر شازيہ کا کيس منظرعام پر آيا اور جب ديکھا کہ اس کيس ميں ايک فوجي بھي ملّوث ہے تو ہم نے ڈاکٹر شازيہ کو ملک سے ہي باہر بھيج ديا۔
سونيا ناز کا کيس جيو ٹي وي نے حکومت کے سامنے رکھا ھے جس ميں سول سروس کے لوگ ملّوث ہيں تو حکومت نے پھر تفتيش کا بہانہ کر کے کيس کو سردخانے ميں ڈالنے کي کوششيں شروع کر دي ہيں۔
يہ تو وہ کيس ہيں جو ميڈيا کے ذريعے منظرعام پر آۓ ہيں اس کے علاوہ پتہ نہيں کتنے کيس ربّ کے حضور روزانہ درج ہوتے ہوں گے۔ مگر جب آخرت سے ايماں ہي اٹھ جاۓ تو پھر کسي کو کوئي پرواہ نہيں ہوتي۔ اب جب امريکہ ريٹرن اور مغرب ميں پلا وزيراعظم ہو اور لادين آرمي کا لادين صدر ہو تو کسي کو کيا پرواہ کہ کہاں زيادتي ہو رہي ہے اور کہاںظلم ہو رہا ہے۔
پرواہ ہے تو اس بات کي کہ ہمارا اقتدار کتنا لمبا ہو سکتا ہے۔ اس کے ليۓ ہميں انتخابات ميں دھاندلي بہي کرني پڑے يا امريکہ کے آگے ننگا ہونا پڑے ہميں ہر چيز منظور ہے۔