یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کی بات ہے جب ایشین ہاکی کی برتری ختم کرنے کیلیے یورپ نے مصنوعی گھاس کی گراؤنڈ متعارف کروائی اور وہ اپنی اس کاوش میں کامیاب بھی رہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ نہ انڈیا اور نہ ہی پاکستان نے اس فیصلے پراحتجاج کیا۔ اس سے پہلے تقریبا ہر ٹورنامنٹ کا فائنل زیادہ تر انڈیا اور پاکستان میں ہوا کرتاتھا۔ جب میچ آسٹروٹرف پر کھیلے جانے لگے تو پھر پاکستان اور انڈیا کی ہاکی زوال پزیر ہونے لگی۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں آسٹروٹرف کی نایابی تھی۔ شروع میں تو یہ ٹرف تھی ہی بڑی مہنگی اور اسی وجہ سے کافی عرصہ تک پاکستان یہ ٹرف خرید ہی نہ سکا۔ پھر خدا خدا کرکے پہلی ٹرف کراچی شہر میں بچھائی گئ اور لاہور کی ٹرف بچھانے میں بھی کافی عرصہ لگا۔
سیدھی سی بات ہے کہ جب پاکستان میں آسٹروٹرف پر کھیلنے کے مواقع محدود ہوں گے اور زیادہ تر پاکستانی قدرتی گھاس پر ہاکی کھیلیں گے تو وہ مصنوعی گھاس پر اپنا اصل کھیل نہیں دکھا سکیں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس کھیل نے بھی غریبی امیري کے فرق کو واضح کر دیا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یورپ نے اپنی دولت کے بل بوتے پر فیلڈ ہاکی میں برتری حاصل کی تو اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے گیارہ سال میں پاکستان صرف ازلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں گولڈ میدل حاصل کرسکا ہے۔ موجودہ انڈیا میں کھیلی جارہی چیمپین ٹرافی میں بھی پاکستانی ہاکی ٹیم اب تک کوئی خاص کاکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ آج کے میچ میں بھی پاکستانی ہاکی ٹیم کی کارکردگی انڈیا کے خلاف کوئی خاص نہیں رہی۔ سارے کھیل میں یہی لگ رہا تھا کہ ہماری ٹیم انٹرنیشنل ہاکی میچز کیلیے تیار ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سفارشی کھلاڑی ٹیم میں زیادہ ڈالے گۓ ہوں گے۔
پاکستانی ٹیم نے اگر دوبارہ ۱۹۷۰ والا مقام حاصل کرنا ہے تو پھر مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرنا ہوگا۔
۱۔ پاکستان کے ہرشہر میں آسٹروٹرف بچھائی جاۓ اور ضلعی سطح پر سارے ٹورنامنٹ اسی مصنوعی گھاس کی گراؤنڈ پر کراۓ جائیں۔
۲۔ اگر ہر شہر میں مصنوعی گھاس والی گراؤنڈ مہیا نہیں کی جاسکتی تو پھر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو فل ٹائم ملازم رکھ کر روزانہ آسٹروٹرف پر پریکٹس کرائی جاۓ۔
۳۔ کیونکہ مصنوعی گھاس پر کھیلنے کیلیے زیادہ قوت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے کھلاڑیوں کی جسمانی صحت ان کی سیلیکشن کیلیے ایک اہم بنیاد ہونی چاہیے۔
۴۔ ورلڈ ہاکی فیڈریشن کو قائل کیا جاۓ کہ ہاکی کا کھیل دوبارہ قدرتی گھاس پر شروع کیا جاۓ۔
موجودہ حالات میں ہماری حکومت کے بس میں شائد ان تجاویز پر عمل کرنایاکروانا انتہائی مشکل ہوگا۔ اسلیےاس وقت کم ازکم کھلاڑیوں کی سیلیکشن انصاف کےساتھ کی جاۓاور پھر ان کھلاڑیوں کی تربیت میں ٹیم ورک کا زیادہ خیال رکھا جاۓ۔ ہمارے زیادہ تر کھلاڑی انفرادی کھیل دکھانے کے چکر میں رہتے ہیں اسی لیے ہمیں پاکستانی ٹیم میں تال میل اور پاسنگ کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں کو یہ باور کرایا جاۓ کہ ایک کھلاڑی اکیلا گیارہ کھلاڑیوں کو کبھی بھی نہیں ہرا سکے گا ۔ اگر میچ جیتنا ہے تو پھر گیارہ کھلاڑیوں کو ایک ٹیم بن کر کھیلنا ہوگا۔
1 user commented in " ایشین بمقابلہ یورپین ہاکی سٹائل "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply