ايک دفعہ ملا نصير الدين نے ديکھا کہ ايک جگہ بھيڑ لگي ہوئي ہے اور طوطے کا مول طول ہورہا ہے۔ ديکھتے ہي ديکھتے وہ طوطا مہنگے داموں فروخت ہوگيا آج کے زمانے کے حساب سے کوئي پانچ سو روپے ميں۔ملا نے جانوروں اور پرندوں کي يہ آؤ بھگت ديکھي تو دوسرے دن اپني مرغي لے کر ميلے ميں جا کھرے ہوۓ کسي نے ان کي مرغي کي قيمت سو سوا سو سے زيادہ نہ لگائي۔ ملا ناراض ہوۓ۔ انہوں نے کہا کہ کل ايک معمولي قدروقيمت اور وزن کا طوطا ميري مرغي سے پانچ گنا زيادہ قيمت ميں خريدا گيا اور ميري مرغي کي يہ بے توقيري؟ کسي نے کہا “ملا جي وہ طوطا بولتا تھا” ملا جي نے کہا ” تو کيا ميري مرغي سوچتي ہے؟”