جب کسی غیرت مند نے قرض دینا ہو تو وہ اپنے بجٹ کو محدود کر کے اور بھوکا رہ کر قرض کی لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جب کسی لاپرواہ نے قرض دینا ہو تو وہ قرض کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ مزید قرضے کے سہارے اپنی عیاشیوں کو جاری رکھتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے سیاسی لیڈروں کا بھی یہی حال ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی معروف معیشت دان ہیں اور جنگ میں “معیشت کی جھلکیاں” کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ کل والے کالم میں انہوں نے ملک پر بڑھتے قرض کا حساب لگایا ہے۔

بقول ان کے پاکستان پر آزادی کے 51 برس بعد 2672 ارب روپے قرض تھا۔

مگر گزشتہ دو برسوں میں ملک پر تقریبا 2800 ارب روپے قرض کا اضافہ ہوا ہے۔

اس وقت پاکستان 9200 ارب روپے کا مقروض ہے

گزشتہ اڑھائی برسوں میں ایک کروڑ ستر لاکھ مزید افراد انتہائی غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت انتہائی غریب افراد کی تعداد تقریبا سات کروڑ ہے۔

اس خستہ حالی کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے پاس ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے بلکہ وہ تو آئندہ بھی ہر سال قرض لیتے رہیں گے۔

مگر کب تک؟ جب غریب میں مزید گرم ہواؤں کے تھپڑ کھانے کی ہمت نہ رہی تو پھر وہ اپنے حکمرانوں کو بھی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے نہیں لینے دیں گے۔