حسب معمول اس دفعہ بھی کسی کا رمضان بدھ کو شروع ہوا اور کسی کا جمعرات کو۔ ہماری مسجد والوں نے بدھ کو روزے کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا مگر ہمارے محلے دار نے روزہ جمعرات کو رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کیلنڈر کی رو سے مسجد والوں نے روزے کا اعلان کیا وہ یہودیوں کا بنایا ہوا ہے اور عہد نبوی میں بھی رائج تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اگلے دن تراویح نماز اسی مسجد میں اسی انتظامیہ کیساتھ پڑھی جن سے ان کا اختلاف تھا۔

چلیں مان لیا کہ کیلنڈر یہودیوں کا بنایا ہوا ہے مگر اس کیلنڈر کے ٹھیک ہونے کی تصدیق تو خود کی جا سکتی ہے۔ اب ٹيکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ مصنوعی سیارے سے زمین پر پڑی سوئی تک دیکھی جا سکتی ہے تو پھر جاند کیوں نہیں۔ اگر چاند دیکھنے کیلیے رویت ہلال کے چیئرمین مفتی منیب دوربین استعمال کر سکتے ہیں تو پھر دوسری جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے اگر انہوں نے کیلنڈر بنانے میں مدد کر دی تو پھر ان کی رویت ہلال کی چیئرمین شپ جاتی رہے گی۔

ہم پہلے بھی اس موضوع پر “کیا جدید ٹيکنالوجی سے استفادہ ممنوع ہے” کے عنوان سے لکھ چکے ہیں اور مانتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے سورج کے کیلنڈر کی طرح چاند کا کیلنڈر بھی بنایا جا سکتا ہے مگر اس کیلیے ضروری ہے کہ نیت اتحاد بین المسلمین کی ہو۔

بقول اوریا مقبول جان کے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک بین الاقوامی رویت ہلال کمیٹی بنائے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے اس کے مطابق ساری دنیا میں مسلمان ایک ہی دن عید منائیں۔

بلاگر عثمان صاحب نے بھی اس مسئلے پر اپنے انداز میں لکھا ہے مگر حل بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ کالم نگار اوریا مقبول جان نے اپنے کالم میں نہ صرف مسئلے کی وجہ بیان کی ہے بلکہ اس کا حل بھی لکھا ہے۔