پچھلے کچھ عرصے سے حکومت میں شامل اقلیتی جماعتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حکومت میں رہ کر حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ اس تنقید کا حکومت پر اثر ہوتا ہے اور نہ یہ پارٹنر حکومت سے الگ ہوتے ہیں۔ اس جرم میں مسلم لیگ ن، جمیعت العلمائے اسلام، اے این پی اور ایم کیو ایم پیش پیش رہی ہیں۔ حکومت کی مخالفت پہلے حزب اختلاف کیا کرتی تھی مگر جب سے سیاستدانوں کا آپس میں ایکے کی وجہ سے حزب اختلاف کا وجود ختم ہوا ہے حکومتی کولیشن میں شامل جماعتیں یہ فریضہ انجام دینے لگی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت میں پی پی پی بھی شامل ہے مگر پی پی پی کے گورنر کا پنجاب حکومت کیساتھ پنگا پڑا ہی رہتا ہے۔
اے این پی وفاقی حکومت کا حصہ ہے مگر کل ہی ان کے صوبائی گورنر نے کہا ہے کہ ابھی تک انہیں وفاقی حکومت سے سیلاب فنڈ سے ایک پائی بھی نہیں ملی۔
مسلم لیگ ن وفاقی حکومت میں تو شامل نہیں مگر وہ اس کی مخالفت بھی نہیں کر رہی۔ اس کے باوجود نواز شریف اور صدر زرداری کے درمیان مخالفانہ مکالمات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔
ایم کیو ایم جب پرویز مشرف کی حکومت میں شامل تھی تو میڈیا پر ہونے والے ظلم پر بیان داغ دیتی تھی۔ اب الطاف بھائی نے جرنیلوں کو مخاطب کر کے جاگیردار سیاستدانوں کا کورٹ مارشل کرنے کی جو بات کی ہے وہ پی پی پی کو ناگوار نہیں گزری بلکہ ایک وفاقی وزیر نے صرف اتنا کہا ہے کہ الطاف حسین کو جرنیلوں کی کرپشن کی بات بھی کرنی چاہیے تھی۔
یہ تو سراسر فوج کو مارشل لا کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ہے الطاف بھائی جوش جذبات میں ایسی بات کر گئے ہوں اور بعد میں بیان دے دیں کہ ان کی بات کا مطلب سیاق و سباق سے ہٹ کر نکالا گیا ہے۔ جب تک الطاف حسین حکومت کا حصہ ہیں ان کی یہ تقریر مولے جٹ کی بڑھک کے سوا کچھ نہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ الطاف بھائی جاگیردار سیاستدانوں کی حکومت کا حصہ بھی ہیں یعنی ان کے جرائم میں برابر کے شریک بھی ہیں اور انہی کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ بھئی اگر جاگیرداروں کی حکومت سے اختلاف ہے تو پھر کولیشن سے الگ ہو جاؤ۔ مگر نہیں جس درخت کا پھل چکھنا اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنا اب حکومت میں شامل اقلیتی جماعتوں کا شغل بن چکا ہے۔ خدا جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے؟
22 users commented in " الطاف بھائی ہوش میں تو ہیں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackmain app ki iss baath say mutafiq hoon
Altaf bhai ko yeah baath samhajni chahiyah kay app bhi issi hokomat ka hisa hain. aur har badinwani kay brabar kay shareek hain
افضل بھائی، ہوش ، عقل ، شعور ، ادراک اور الطاف حسین کی متضاد چیزیں نہیں ہیں کیا؟
مجھے الطاف بھائی کے اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
اکثر وہ زیادہ پی لیتے ہیں تو اسطرح کی بات کرجاتے ہیں۔ پھر بیچارے ساتھی لوگ میڈیا کے سامنے نت نئی تاویلات اور تشریحات نکالنے کی مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔
ارے عمران بھائی نے بھی الطاف بھائی کے موقف کی حمايت کردي۔ اب کيا کہيں گے آپ اصحاب؟
http://daily.urdupoint.com/featured_137937_1_2.html
میری دانست میں کورٹ مارشل کرنا اور مارشل لاء لگانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ الطاف حسین اور عمران خان سمیت کسی بھی سیاستدان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فوج کو آئین کی خلاف ورزی پر اکسائے اور مارشل لاء لگانے کی دعوت دے۔ البتہ اگر کوئی سیاستدانوں کا کورٹ مارشل کرنے کی بات کہے تو وہ کچھ غلط نہیں۔ لفظ کورٹ مارشل سے یہاں مراد ایسی سخت اور تادیبی کاروائی کرنا ہے جیسے فوج میں کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔
اسد بھائی! فوجی کون ہوتا ہے سیاست دان کا کورٹ مارشل کرنے والا۔ کورٹ مارشل تو کیانی کا ہونا چاہے جنہوں بطور ڈی جی آئی ایس آئی این آر او جیسی بدنامہ زمانہ ڈیل کی تھی۔ فوج نے اس ملک کو تباہ کردیا ہے۔ میرے خیال میں فوج مکمل طور پر سیاست سے علیحدہ ہوجائے یہ الطاف ، یہ نواز، زرداری مداری ، ڈیزل وغیرہ خود بخود منظر سے ہٹ جائیں گے۔
عمران خان ہمارا رشتہ دار نہیں ہے، جو جو غلط کہے گا اور اول بکے گا ہم اسے غلط کہیں گے۔ کسی بندے کی غلامی نہیں کرتے ہم
موجودہ نظآم صیح نہیں۔چاروں صوبوں کے ٪100 عوام تبدیلی چاہیتے ہیں۔
ثبوت یہ رہا
http://ejang.jang.com.pk/8-24-2010/images/1050.gif
موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہے ملک کو غریب و متوسط طبقے کے انقلاب کی ضرورت ہے۔
میری احباب سے درمندانہ اپیل ہے کہ
الطاف حسین پر اپنا وقت ضائع نہ کیا کریں
محترم افضل صاحب!۔
بات اسقدر سادہ نہیں۔ بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے۔ اور بلی کو تھیلے سے نکالنے کے لئیے الطاف حسین کے ھاتھ استعمال ہو رہے ہیں۔
ایم کیو ایم نے کئی سالوں سے اور پاکستان کی نااہل ترین حکومتوں جن میں فوجی ڈکٹیٹر سے لیکر ہر قسم کی نااہل جمہوری حکومتوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لُوٹے اور جن وڈیروں ، مخدوموں پہ ایم کیو ایم بظاہر تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ انھی کے ساتھ اقتدار کی پینگ میں ہنوز ہلارے لے رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا ۔ جب بھی کوئی نئی حکومت وجود میں آتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے وفد خیر سگالی کے لئیے اقتدار کے مرکزوں و محوروں کی یاترا شرو ع کر دیتے ہیں اور تان اس بات پہ ٹوٹتی ہے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ایم کیو ایم “اِس” حکومت کا بھی حصہ بننے پہ تیار ہے۔ اقتدار کے کیک سے حصہ بقدر جثہ سے بھی زیادہ کے لئیے نائن زیرو سے زیادہ سے زیادہ کے مطالبات سامنے آتے ہیں اور آخر کار کسی نہ کسی صورت میں ایم کیو ایم ماضی قریب کی سبھی حکومتوں میں شامل ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ لطاف حسین کی آشیر باد سے ممکن ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پچھلے ایک آدھ ھفتے سے کیا واقعی الطاف حسین کی سیاسی بصریت کی کایا پلٹ گئی ہے کہ پہلے الطاف حسین نے زرداری کو پیرس اور لندن کے دورے سے منع کیا ۔ سیلاب کی ناگہانی آفت پہ کچھ دنوں تک اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی سیلاب سے نمٹنے میں نااہلی پہ ایم کیو ایم کی طرف سے زبر دست تنقید اور فوراََ بعد ایم کیو ایم کے جنر ورکرز کے اجلاس سے الطاف حسین کے اہم اعلان کی میڈیا میں تشہیر اور اعلان اور اسکے نکات جو ابھی زیر بحث ہیں ۔
ہمیں اُسی دن تشویش ہوئی تھی جب “وڈے شاہ جی” یعنی امریکہ کے پاکستان میں متعین قونصلیٹ نے کچھ دن قبل لندن میں الطاف حسین سے تین گھنٹے سے زائد ملاقات کی تھی ۔پاکستان کی بدقسمتی اور پاکستان کے دشمنوں کی خوقسمتی سے پاکستان اس وقت اپنی تارٰک کے بدترین سیلاب کو بھگت رہا ہے۔ جس سے پاکستان کی دشمن طاقتوں نے پاکستان پہ اپنے دانت تیز کرنا شروع کر دئیے ہیں ۔
پاکستان میں آنے والے سیلابوں کے بارے میں ادنٰی سا ماہر بھی یہ جانتا ہے کہ جو سیلاب پاکستان کے انتہائی شمالی علاقوں کے دریاؤں سے شروع ہوتا ہے وہ سیلاب بالاآخر ہزراوں میل کا سفر کرتا شمال سے جنوب کی طرف بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔ سیلاب کی شدت جسقدر زیادہ ہوگی اسکی تباہی بھی اسقدر ذیادہ ہوگی اور شمال سے بہنے والا سیلاب پاکستان کے سبھی علاقوں کو متاثر کرتا ہوا ۔ اپنے ساتھ ہر شئے کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
سیلاب کی شرعات ہوتے ہی پیپلز پارٹی اور حکمران گھبرا گئے ۔پاکستان کے ایک بڑے سیاستدان نواز شریف اور حکمران یوسف گیلانی نے سیلاب کے اوائل میں ہی سیلاب کی تباہی سے دوچار ہونے والے افراد کی امداد کے لئیے ملنے والے فنڈز غیر حکومتی اور غیر جانبدار افراد کے کمیشن کے ذرئیے دلوائے جانے کے لئیے ایک کمیشن قائم کرنے کا اعلان کر کے پاکستان دشمنوں اور دیگر کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی حکومت اور سیاستدان اسقدر نااہل اور کرپٹ ہیں کہ خود انکے عوام اُن پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ جو لوگ دنیا میں رائج مختلف حکومتی نظاموں کو سمجھتے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اسکے ایک ہی معانی بنتے ہیں کہ ایسی حکومت اور سیاستدان اس قابل نہیں کہ اُن سے معاملات کئیے جائیں ۔ اور جب اس ملک کے عوام ہی حکومت اور اپوزیشن پہ اسقدر مشکل وقت میں اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور اسکا اعتراف حکومت اور اپوزیشن خود غیرجانبدار کمیشن قائم کرنے کا علان کر کے کہہ رہے ہیں ۔تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کا وجود ندارد ہے۔اگر اسی اعلان پہ ہی بس ہوتا اور کچھ نیک افراد ڈھونڈ کر اعلان شدہ کمیشن قائم کر لیا جاتا تو عوام کے بے پناہ جذبے سے پاکستان کو زلزے کے دنوں کی طرح ایک نئی قوم مل جاتی اور پاکستان فوری ازالہ ممکنہ حد تک اپنے وسائل سے کر لیتا۔ عوام میدان میں اترتے اور قومی جزبہ پیدا ہوتا۔مگر ہماری بدقسمتی سے یوں ہو نہ سکا۔
پاکستان دشمنوں اور دیگر کی باچھیں کھل اٹھیں۔ پاکستان کے لالچی اور غیرت و حمیت سے عاری سیاستدانوں کو محض امدادی ڈالرز سے غرض ہوتی ہے ۔ اور دسمن طاقتیں ہماری یہ کمزوری خوب جانتی ہیں۔ کہاں تو دنیا بھر کا میڈیا چیخ چیخ کر شمالی علاقہ جات کی تباہی اور خیبر پختونخواہ کی سیلاب کے ہاتھوں بربادی سے آگاہ کر رہا تھا اور دنیا خاموش بیٹھی تھی۔ پاکستانی حکومت گھبرائی ہوئی اور عوام پریشان تھے ۔ مذکوری کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی وہ قوتیں حرکت میں آگئیں جو کسی صورت بھی پاکستان کی ملی یکجہتی نہیں چاہتیں ۔ ہر طرٖ سے آنا فانا امداد کے اعلان ہونے لگے ۔ بانکی موں پاکستان آئے۔ امریکہ نے اپن ایلچی بیجھے۔ اقوامِ متحدہ سے اپیل پہ اپیل جاری ہونے لگی ۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلوایا ۔ امریکہ اس سارے معاملے میں پیش پیش تھا ۔ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہری ہری سوجھی۔ جاگتی آنکھوں سے ڈالروں کے بنڈل ہی بنڈل۔ نوٹوں کی بوریا ہی بوریاں نظر آنے لگیں۔نواز شریف کے ساتھ ایک دفع پھر ہاتھ ہو گیا۔ وعدوں کی پاسبانی نہ کرنے والوں اور وعدوں کو قرآن و حدیث نہ سمجھنے والوں نے اپنی دانست میں ساد لوح نواز شریف کو ایک بار پھر دہوکہ دے ڈالا ۔ جبکہ یہ دہوکا وہ پاکستان کی عوام کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے ساتھ بھی کررہے تھے۔ ہمارے سیاستدان آئندہ پیش آنے والے حالات کا ادراک نہ کر پائے۔ مذکورہ کمیشن کے ممکنہ قیام کے بعد جن محب وطن قوتوں اور عوام نے امیدیں وابستی کر لیں وہ آن واحد میں ڈالروں کی چکا چوند کی نظر ہوگئیں۔
ہماری حکومت ۔ اسکی وزارتیں ۔ منصب دار ہر کوئی اس امدا و خیرات کو اپنی حکومت کی معرکہ مارنے کی مثال بنانے میں پیش پیش ہے ، خیرات پہ مبارک سلامت کا وہ شور و غلغلہ ہنوز جاری ہے جس کے پیچھے اس سارے فسانے کے مرکزی کردار سیلاب کے ہاتھوں اجڑے متاثرین اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں۔وہ جو کل تک آئیندہ فصل کے آنے تک اپنے لئیے وافر اناج اور مقدور بھر سہولت سے اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے تھے۔ انمیں سے اکثر کو رات مساجد میں سیلاب کی ناگہانی آمد کے اعلانات نے آن واحد میں اس جگہ پہ لاکھڑا کیا کہ آج اچھی خاصی سوجھ بوجھ والا پاکستانی بھی انھیں خیرات اور زکوٰاۃ دینا چاہ رہا ہے۔ جبکہ حق یہ ہے کہ وہ مانگت نہیں ۔ بھیک مانگنے والے نہیں ۔ بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک کے لئیے اناج اگا کر دینے والے لوگ ہیں۔پاکستانی وفاقی صوبائی حکومتوں کی نااہلی نے انھیں اس مقام پہ لاکھڑا کیا ہے کہ وہ بھوک سے سے بلکتے بچوں، ایک ہی کپڑوں کے جوڑے میں پچھلے دوماہ سے ملبوس اپنی بھوکی خواتین اور بے پردگی کا شکار مستورات کے لئیے ہر کسے ناکس کے سامنے ہاتھ پھیلانے پہ مجبور ہیں۔
پاکستان کا نیا نویلا میڈیا اپنی عدات سے مجبور ہر واقعے کو انتہائی سنسی خیز اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہین سیلاب نے دوہزار پانچ کے زلزلے کی تباہی کو بھی مات کر دیا ہے اور ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ مگر اس ساری تصویر کشی نے پاکستان مخالف عالمی طاقتوں اور پاکستان کے اندر طالع آزما اور بکاؤ لوگوں کے من میں پاکستان کے اندر اقتدار کی تبدیلی سے اقتدار کے سنگھاسن کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے ہیں۔
اس بات میں کسی ذی ہوش کو شک نہیں کہ امریکہ دھیرے دھیرے پاکستان کے گرد اپنا شکنجا کستا جارہا ہے اور ہماری موجودہ حکومت اور سیاستدانوں کی سیلاب جیسے ناگہانی آفت سے نمٹنے میں ناکامی اور نااہلی نے امریکہ کو نادر موقع مہیا کیا ہے۔ پاکستان کی شکست و ریخت سے کسی اور کا فائدہ ہو نہ ہو مگر اُن طاقتوں کو اس مین اپنا مفاد نظر آتا ہے جو پاکستان کے در پے ہیں۔
سندھ کے وزیر اعلٰی سندھ کے متاثرین کو بغیر کسی معقول وجہ کے اقدر دور کراچی اور حیدرآباد میں بغیر کسی پلاننگ کے بسانے پہ بضد ہیں ۔ جس سے کراچی کی مخدوش امن عامہ کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ جس کے پس پردہ شہری پراپرٹی اور قیمتی زمینوں اور پلاٹوں پہ قبضہ کرنے کے قصے بھی بیان کئیے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو آئیندہ کے مبینہ خطرات کا بھوت اپنے سر پہ نظر آرہا ہے۔ اور ان دیکھی طاقت حکومت کو سیلاب کے متاثرین کی مدد سے غفلت برتنے سے لیکر علاقائی اور لسانی جماعتوں تک ہر ایک کردار کو میدان میں لے آئی ہے۔کچھ کرداروں کو یہ اندیکھی قوتیں انکی بقا کے اندیشہ ہائے دوردراز کے ڈرواے دے کر کچھ کو ڈالزز کی چکا چوند ۔ کئی ایک کو زمینوں کے قبضوں کے کواب دکھلا کر۔ کوئی وقت جاتا ہے دکھم پیل کا آغاز ہونے والا ہے
اس گھناؤنے منظر کشی کی ابتداء الطاف حسین کو ” مخصوص یقین دہانیوں” کے بعد الطاف حسین کے بیان کے ہاتھوں کروا دی گئی ہے ۔ آنے والے دنوں میں بہت سے کردار اس سلسلسے کو آگے بڑھائیں گے۔ بھانت بھات کی بولی بولنے والے بڑھ بڑھ کر بولی دیں گے۔ اسمیں خود پیپلز پارٹی کا بکاؤ مال بھی شامل ہوگا ۔تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کرنے والے ایسی دل کو موہ لینے والی تصویر کشی کریں گے کہ اچھے خاصے عقلِ سلیم کے مالک لوگ اس کورس میں شامل ہوجائیں گے ۔ کچھ کی کمزوریاں امریکہ کے پاس ہیں ۔ کچھ کو لالچ دیا جائے گا۔ کچھ کو بلیک میل کیا جائے گا۔
اس سیلاب کے کچھ روز بعد ہی ہم نے پشین گوئی کی تھی کہ اس سیلاب میں کوئی اور بہے یا نہ بہے اس سیلاب میں زراداری اور پیپلز پارٹی کی انتخابی سیاست البتہ ضرورہ بہہ جائے گی۔
میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان ملٹری یا آرمی کو پاکستان کے موجودہ حالات میں امریکہ آسانی سے ٹریپ کر سکے۔ نیا سیٹ اپ موجودہ حکومت کی روانگی اور کسی ایسی نئی حکومت کا قیام ہو سکتا ہے جسے “قومی” قرار دیا جاسکے اور پاکستان آرمی کو اسکی پشت پناہی کے لئیے تیار کیا جائے۔ یا پھر پاکستان کی بدقسمتی سے فوج مکمل مارشل لا ء کے نفاذ سے موجودہ حکومت کو فارغ کر دے، یہ دونوں صورتیں پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستان کے لئیے خطرناک ثابت ہونگی۔
اگر پاکستان میں مارشل لاء آتا ہے تو خدا نخواستہ بلوچستان ملک سے الگ کر دیا جائے گا۔ اور جن خود کش دہماکوں سے قوم دہشتناک ہے یہ دہماکے پاکستان کے گلی کوچوں میں عام ہو جائیں گے ۔ آنے والے حالات میں موجودہ حالات کو یاد کر کے لوگ آہیں بھریں گے۔امن عامہ مخدوش ہوجائے گا۔ پاکستان کے بیشتر علاقے پاکستانی حکومت کی عملداری سے عملا آزاد ہوجائیں گے۔
پاکستانی سیاستدانوں کو چاہئیے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ الطاف حسین کے بیان کو سنجیدہ لیں۔ سیلاب اور سیلاب کے بعد آنے والے مہنگائی کے ہوشرباء عذاب سے جو پاکستان کے اُن علاقوں میں بھی آئے گا جہاں سیلاب کا عذاب ابھی نہیں پہنچا ۔ مہنگائی کا آئیندہ عذاب موجودہ سیلاب سے بھی سوا ھوگا۔ اس سیلاب اور آنے والے وقت کے لئیے بہتر منصوبہ بندی کریں ۔ ایک دوسرے پہ اعتماد کریں ۔ تانکہ عوام کا اعتماد بحال ہو ۔ وہ دل کھول کر سیلاب ذدگان کی مدد اور بحالی میں فنڈ جمع کروائیں۔ اور گُڈ گورنس سے پاکستانی عوام کا معیار زندگی بلند کریں۔
میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لوگوں کو تبدیلی اور انقلاب کے خوآب دکھانے کی بجائے قومی ذمہ داری کی تلقین اور تاثر ابھارے ۔
ورنہ آنے والا وقت کراچی سے لیکر شمالی علاقہ جات تک بہت سخت ہوگا جس سے پاکستان کے سبھی شہری خواہ انکی رنگت و نسل اور زبان کوئی بھی ہو سبھی متاثر ہونگے۔ آگ جب پھیلتی ہے تو وہ دوست و دشمن کی تمیز نہیں کرتی۔
خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین
تصیح
ایک ہی کپڑوں کے جوڑے میں پچھلے دوماہ سے۔۔۔۔۔کو۔۔۔ایک ہی کپڑوں کے جوڑے میں پچھلے دو ھفتےسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھا جائے۔۔۔ یعنی دو ماہ کو دوھفتے پڑھا جائے۔
کرپٹ سیاستدانوں کیخلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کرینگے، الطاف حسین
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کیخلاف مارشل لا جیسے اقدام کی حمایت کرینگے، پاکستان کو کرپٹ جاگیرداروں، وڈیروں اورسرداروں سے نجات کیلئے انقلاب ِ فرانس کی طرز کے انقلاب کی ضرورت ہے، عوام ایم کیو ایم کو اقتدارمیں لائیں ملکی دولت لوٹنے والوں کو سرعام لٹکائیں گے، اپنی زمینیں بچانے کیلئے بندوں کے پشتے توڑنے والے انسانیت کے مجرم ہیں، امریکااپنی دوہری پالیسی تبدیل کرے ، کرپٹ جاگیرداروں، جرنیلوں اور جاگیرداروں کا ساتھ دینے کی بجائے پاکستانی قوم کا ساتھ دے، فوج کے محب وطن جرنیل اورآئی ایس آئی خدارا ان ڈاکووٴں اور لٹیرے جاگیرداروں وڈیروں کاساتھ دینابند کر دیں۔ انہوں نے ان خیالات کااظہارآج لال قلعہ گراوٴنڈ عزیزآباد میں ایم کیوایم کے جنرل ورکرزاجلا س سے ٹیلیفون پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں اراکین رابطہ کمیٹی، ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے وزرا، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی بھی موجودتھے ۔ اجلاس سے رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹرفاروق ستارنے بھی خطاب کیا۔ الطاف حسین نے کہا کہ آج پورے ملک کے محب وطن عوام کیلئے یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ گزشتہ 63برسوں کے دوران غریب متوسط طبقے کے ایماندار لوگوں کو حق حکمرانی نہیں دیا گیا اور بڑے بڑے جاگیردار اوروڈیرے میوزیکل چیئر کے کھیل کی طرح اقتدارپر براجمان ہوتے رہے ،ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجاتارہااورہمارے ارباب اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ یہ سب کچھ دیکھتی رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب 2005ء میں تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا اس وقت ہیلی کاپٹرز کا رونا رویا جاتا تھا،آخراس وقت پاکستان کو اربوں کھربوں کی جوغیرملکی امداد ملی تھی وہ کہاں گئی ؟ اس امداد سے قدرتی آسمانی آفات اور حادثات سے نمٹنے کیلئے آلات ، حفاظتی مشینیں ، ہیلی کاپٹر اور امدادی سامان کیوں نہ خریدا گیا؟ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کیوں قائم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیاہمیں انہی جاگیرداروں اور وڈیروں کیلئے کام کر نا ہے جونہ صرف غریبوں کا خون چوستے ہیں بلکہ قدرتی آفات کو بھی غریبوں کے متھے لگا کر جاگیردار زمینیں بچا لیتے ہیں ، کیا ہم زندہ بادکے نعرے لگاکر انہی کی سپورٹ کرتے رہیں گے جو ملک اور ملک کے عوام کو لوٹتے رہے ہیں اور ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار ہیں اور آج باقی ماندہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بضد ہیں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی آزاداور خودمختار نہیں بلکہ بیرونی قوتوں کے زیراثر ہے، اس کے برعکس بھارت کی خارجہ پالیسی 99 فیصد پاکستان کی خارجہ پالیسی سے زیادہ موٴثر ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ارکان بیرون ملک دوروں پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بجائے وہاں بڑے بڑے شاپنگ سینٹروں کی سیر کرتے رہتے ہیں جبکہ انڈیا کے سفارتکار اپنے ملک کے مقدمے کو موٴثر انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ ملک کی ناقص خارجہ پالیسی جاگیردار وڈیرے، سرمایہ کار اور کرپٹ فوجی جرنیلوں کے ذریعے تبدیل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہاکہ فوج پاکستان میں بہت منظم اور ہرکڑے اور مشکل وقت میں قربانیاں دینے والا ادارہ ہے۔ اسکے جوانوں کی اکثریت کا تعلق غریب ، محنت کش یا متوسط طبقے سے ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ ہو،فوج کے جوان اس میں قربانیاں دیتے ہیں ، سردی ہو، گرمی ہو ،چلچلاتی دھوپ ہو، سخت سردی ہو برف باری ژالہ باری ہووہ رات دن سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان میں فوجی جرنیلوں نے 63برس میں آدھی سے زیادہ مدت تک بالواسطہ یا بلا واسطہ مارشل لا کے ذریعے پاکستان پر حکومت کی ، کروڑوں عوام کے مینڈیٹ کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کرکے پارلیمنٹ اور بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگائی، اگر فوجی جرنیل حکومتیں تبدیل کرسکتے ہیں ، سیاسی اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ سکتے ہیں تو انہوں نے آج تک ملک سے جاگیردارانہ ، وڈیرانہ اور کرپٹ کلچر کے خاتمہ کیلئے مارشل لا جیسا اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟ انہوں نے پاک فوج کے محب وطن جرنیلوں کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگرمحب وطن جرنیل اس ظالمانہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ اور کرپٹ اور لٹیرے سیاستدانوں سے ملک کونجات دلانے کیلئے مارشل لا طرز کا کوئی قدم اٹھاتے ہیں توہم ان کاساتھ دیں گے۔ ہم نے مارشل لا کے بہت ادوار دیکھے ہیں جوجرنیلوں نے اپنے اقتداراورذاتی مفادات کیلئے نافذ کئے، اگر فوج کے جرنیل ملک کو چور اچکوں ، ڈاکووٴں، ملکی دولت لوٹنے والوں سے نجات اورمعاشرے کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو بڑی برائی کے خاتمہ کیلئے ہمیں چھوٹی برائی قبول ہے ۔ انہوں نے فوج کے محب وطن جرنیلوں اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ہو یا کوئی اور ملک، پوری قوم کواب فیصلہ کرلینا چاہئے کہ ہم نہ امریکا کی ڈکٹیشن لیں گے نہ کسی اور ملک کی ڈکٹیشن لیں گے ، ہم اپنے پیروں پر ملک کو کھڑا کریں گے ، ایمانداری ، دیانتداری سے کام کرینگے مگر ہم ہاتھوں میں کشکول لیکر ملک کی عزت و آبرو کو نہیں بیچیں گے، اس کا سودا نہیں کریں گے ۔ الطاف حسین نے کہاکہ روس اور امریکا کی سرد جنگ جو بعد میں افغان جنگ میں تبدیل ہوئی تو میں نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور مقتدر حلقوں سے کہاکہ پاکستانی عوام کو اس جنگ میں نہ الجھائیں لیکن کسی نے نہیں سنااور اس جنگ کو اسلام اور کافروں کی جنگ قرار دیا ، روس کو کافر اور امریکا کو اہل کتاب کہہ کر مذہبی جماعتوں نے امریکا کا مقدمہ لڑا۔ اس وقت کے فوجی جرنیلوں نے امریکا اور ویسٹ سے خفیہ معاہدے کئے ،پوری قوم کو دھوکہ دیکر امریکا اور روس کی جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دیا۔ایسے مدرسے قائم کئے گئے ، جہاں جہاد کی ٹریننگ دی گئی۔جنگ ختم ہوگئی تو امریکہ چلا گیا اور جو ٹریننگ دینے والے اور لڑنے والے باقی بچے تھے وہ بے سہارا ہوگئے جو آج طالبان اورخود کش حملہ آوروں کی شکل میں جھوٹے پروپیگنڈے کا ایندھن بن رہے ہیں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ اورداخلہ پالیسی اور کرپٹ سیاستدانوں کو ملک میں اقتدار دلانے میں امریکا کاعمل دخل ہے، جس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا اوراگرکوئی کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور قوم کو دھوکہ دیتا ہے ۔انہوں نے امریکا کے صدر باراک اوباما اور امریکی انتظامیہ سے کہاکہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنی ماضی کی پالیسیوں پرنظرثانی کریں۔انہوں نے محب وطن فوجی جرنیلوں اورآئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام سمیت تمام ارباب اختیارکومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ خدارا آپ جاگیردار ، وڈیرے ، سرداروں اور جو نو دولتئے سیاست میں آنے کے بعد کھربوں روپے کے اثاثہ جات کے مالک بن جانے والے ان چور اچکو ، ڈاکووٴں کا ساتھ دینا بند کردیں۔ حالیہ سیلاب میں جہاں آسمانی اور قدرتی آفات کا دخل ہے، وہاں اس میں سازشی عناصر یعنی جاگیردار ، وڈیرے اور سرداروں کی سازشیں بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنی فصلیں، زمینیں، جاگیریں جائیدادیں اور فارم ہاوٴسزکو بچانے کیلئے دریاوٴں کے پشتوں کو توڑا اور سیلاب کا رخ غریبوں کے دیہاتوں، گاؤں گوٹھوں کی طرف کردیا جسکے نتیجے میںآ ج کروڑوں لوگ بھوک ، افلاس بیماری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہاکہ جن جاگیرداروں اور وڈیروں نے اپنی اپنی زمینیں بچانے کیلئے پشتوں کو توڑکر سیلاب کا رخ گاؤں ، گوٹھوں دیہاتوں کی طرف کیاوہ انسانیت کے مجرم ہیں، سیلاب میں اب تک جتنے بھی لوگ ہلاک و بے گھر ہوئے ہیں اورجوتباہی ہوئی یہ اسکے ذمہ دار ہیں بلکہ یہ نسل کشی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے ارباب اختیار سے سوال کیاکہ موجودہ حکمراں ہوں یا سابق حکمراں، سیاست میں آنے سے پہلے انکے مالی اثاثہ جات کیا تھے ، اس وقت انکے پاس کتنی فیکٹریاں ، کتنی ملز، کتنی شوگر ملزتھیں اور آج انکے پاس کتنی فیکٹریاں ہیں اور کتنے اثاثے ہیں، کیا یہ قابل احتساب نہیں؟جواربوں کھربوں کے مالی اثاثہ جات رکھتے ہیں، ان میں سے کتنے حاضر اور سابق حکمرانوں نے سیلاب فنڈ میں اپنے خزانوں سے عطیات غریبوں کیلئے دیئے ؟الطاف حسین نے کہاکہ ملک کو اس وقت انقلابِ فرانس کی طرز کے انقلاب کی ضرورت ہے اورمیں تمام پاکستانیوں سے کہتا ہوںآ پ ایک مرتبہ حق پرست جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا ساتھ دو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایم کیوایم انقلابِ فرانس کی طرح ملک کی دولت لوٹنے والوں کو سرعام لٹکا کردکھائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اب ایک باغیرت قوم بننا ہے، اس کی راہ میں جاگیردار ، وڈیرے ، بڑے بڑے سرمایہ دار اور نام نہاد ملا ، علمائے سو اگر آئے حتیٰ کہ کرپٹ فوجی جرنیل بھی آئے تو پوری قوم ایک ہو کر ان سب کا مقابلہ کریگی اور پوری محب وطن فوج کے سپاہی انشاء اللہ غریبوں ، پاکستانیوں کا اور پاکستان کا ساتھ دیں گے۔ میں تمام پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ آئیں ہم سب ملکر پاکستان کو بچائیں، چور اچکو ں ، ڈاکوؤں سے پاکستان کو نجات دلائیں ، غریب و متوسط طبقے کا انقلاب اور اسکی حکمرانی پاکستان میں قائم کریں اور فی الحال سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دیں کہ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت بڑھ چڑھ کر امداد جمع کرکے جہاں جہاں پہنچا سکتے ہیں وہاں پہنچائیں ۔ اندرون سندھ کے تمام زونوں اور سندھی بھائیوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ بھی متاثرین کی امداد کیلئے جوممکن ہو امداد کریں ، اسی طرح اسلام آباداور راولپنڈی سمیت پنجاب بھرکے 36 ڈسٹرکٹ کے تمام یونٹوں کے ذمہ داران وکارکنان بھی اپنے گھروں سے نکلیں، اپنی مدد آپ کے تحت کیمپ لگائیں،ایک وقت کا کھانا چھوڑ کر وہ پیسہ سیلاب فنڈ میں دیں ۔ پنجاب کے مخیّر حضرات بھی ادھر ادھر مت دیکھیں اور اگر امداد صحیح لوگوں تک پہنچانی ہے تو ایم کیوایم کو اپنے عطیات دیں ۔ ایم کیوایم اور کے کے ایف نے پورے ملک میں 200سے زائد کیمپ لگائے ہیں ، حیدرآباد اور سکھر میں ہزاروں کارکنان دریاؤں کے گرد ریت کی بوریاں اور پتھر لگاکر شہروں ، گاؤں ، گوٹھوں کی حفاظت کررہے ہیں اور میں ایسے کارکنوں ذمہ داروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔
پیرپگارا نے الطاف حسین کی مارشل لاء کی تجویز کی حمایت کردی
حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سر براہ پیر صاحب پگارا نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ملک میں کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف اور محب وطن جرنیلوں کی جانب سے مارشل لاء جیسے اقدام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف الطاف حسین کی تجویز ہے یا واقعی ملک میں ایسا کچھ ہونے جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نو کمنٹس جومین نے کہنا تھا وہ کہا دیا۔
لندن میں موجود ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کو الطاف حسین کی ملک بچانے کیلئے پاک فوج کو دی گئی دعوت پر پاکستان میں ہونے والے رد عمل کی کوئی پرواہ نہیں اور ایک سینئر مشیر کا کہنا ہے کہ ہم نظام میں رہتے ہوئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔الطاف بھائی کی اتوار کو ہونے والی تقریر کے بعد ہر سیاسی جماعت پر نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش پر غصے کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا ،ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین ہے کہ نظام کی تبدیلی کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ایم کیو ایم کے لندن میں موجود تھنکنگ ونگ کے ایک اہم رہنما سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کی جماعت کرپٹ سیاسی قیادت کو آئینی طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی تو ان کا جواب تھا کہ ہم کیوں فرانسیسی رہنما چارلس ڈیگال کی پیروی نہیں کر سکتے۔انہوں نے مجھ سے بھی فرانسیسی جنرل کیلئے قوم کی خدمات کے حوالے سے پڑھنے کیلئے کہا۔ڈیگال فرانسیسی جنرل اور مدبر تھاجس نے فری فرنچ فورسز کی جنگ عظیم دوم میں قیادت کی تھی اور بعد میں 1958ء میں فرنچ ففتھ ریپبلک کی بنیاد رکھی اور 1959سے1969 تک اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ انٹرنیٹ کے ایک انسائیکلو پیڈیا’وکی پیڈیا‘کے مطابق وہ1920 سے 1930کے درمیان لڑی جانے والی جنگ عظیم دوم کے آزمودہ سپاہی تھے اور وہ فرار ہو کر برطانیہ چلے گئے اور ریڈیو پر ایک مشہور تقریرکی جسے BBCنے 18جون 1940کو نشر کیا جس میں انہوں نے فرانسیسیوں کو جرمنی نازیوں کے سامنے مزاحمت کرنے کی ترغیب دی اوربرطانیہ میں موجود جلاوطن فرانسیسی آفیسرز کے ساتھ مل کر فری فرنچ فورسز کو منظم کیا۔آہستہ آہستہ انہوں نے تمام فرانسیسی کالونیوں کا کنٹرول حاصل کر لیااور1944میں فرانس کی آزادی کے وقت وہ جلاوطنی میں بھی حکومت کی سربراہی کر رہے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ دیگر اتحادی فرانس کو ایک آزاد عظیم ریاست کے طور پر جانا جائے۔ وہ فرنچ پرونشل گورنمنٹ کے وزیراعظم بنے لیکن سیاسی اختلافات کی بنا پر 1946ء میں مستعفی ہو گئے۔جنگ کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی جماعتPRF تشکیل دی ۔اگرچہ وہPRFکی طاقت کے حصول میں ناکامی کے بعد سیاست سے ریٹائرڈ ہو گئے لیکن فرانسیسی اسمبلی نے 1958کے بحران میں انہیں وزیراعظم بنادیا۔انہوں نے نیا آئیں تیار کرایا اور Fifth Republicکی بنیاد رکھی اور پھر فرانس کے صدر منتخب ہو گئے۔ انہوں نے بحیثیت صدر سیاسی بد نظی کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے فرانس کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی خصوصی نگرانی کی اور امریکی اور برطانوی اثر سے قومی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے آزاد خارجہ پالیسی کی تیاری کی کوششیں کیں۔ انہوں نے مغربی اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے فرانسیسی فورسز کو نیٹو کی کمانڈ سے علیحدہ کر دیا اور برطانیہ کی یورپی برادری میں شمولیت کودوبار ویٹو کیا۔1965میں کثرت رائے سے دوبارہ صدر منتخب ہوئے اور طلبا اور ورکرز کے بھرپور احتجاج کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اقتدار پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے لیکن اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باعث ان کا اقتدار محفوظ رہا۔انہوں نے 1969 ء میں ریفرنڈم میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا۔اکثریت انہیں ماڈرن فرانسیسی تاریخ کا سب سے زیادہ بااثر رہنما مانتی ہے۔ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے چارلس ڈیگال کا حوالہ دینے لندن میں سوچ کی کئی نئی راہیں سامنے آ رہی ہیں کیونکہ چارلس ڈیگال کے سیاسی کیریئراور الطاف حسین کی لندن میں جلاوطنی کے دوران کی جانے جدوجہد میں کئی امر مشترک ہیں۔یہ تنقید کہ ایم کیو ایم ابھی بھی اس کرپٹ نظام کا حصہ ہے تو اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے اہم مشیر کا کہنا تھا کہ ہم نظام میں رہتے ہوئے ہی جدو جہد کررہے ہیں۔اگر ہم نظام سے علیحدہ ہو جاتے تو ہم کو ماضی کی طرح آپریشنز کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔لیکن یہ نظام کرپٹ ہے اور ہم اس میں بہتری لائینگے۔لندن میں موجود ایک اور ذریعے نے اعلیٰ سیاسی قیادت میں کرپشن کاذکر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ جس نے حال ہی میں لندن میں ہائیڈ پارک نمبر 1میں 140ملین پاؤنڈزمالیت سے پینٹ ہاؤس خریدا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ نائٹس برج میں 2منزلوں پر پھیلے 6کمروں کے اپارٹمنٹ میں بلٹ پروف کھڑکیاں ہیں اور ایک پینک (panic)روم بھی ہے۔ نئے مالکان کو پڑوس میں واقع مینڈارن اورینٹل ہوٹل سے24گھنٹے روم سروس حاصل ہو گی اور ان کی حفاظت SASکے تربیت یافتہ سیکورٹی گارڈ کریں گے۔
@ ابوسعد
آپ کی بات درست کہ فوج کو سیاستدانوں کا ٹرائل کرنے کا کوئی اختیار نہیں لیکن یہاں بھی ضروری ہے کہ سیاستدان مادر پدر آزاد بھی نہیں ہونے چاہیں۔ ان کے خلاف عدلیہ کو کاروائی کرنی چاہیے جیسے فوج اپنے اہلکاروں سے باز پرس کرتی ہے۔
@ فرحان دانش
تبدیلی کے خواہش مند افراد اگر واقعی سو فیصد ہیں تو پھر سمجھ لیجیے کہ تبدیلی کبھی نہیں آنے والی۔ نا معلوم یہ کیسا سروے تھا جس میں کسی نے ماضی کے قصیدے تو پڑھے لیکن مستقبل کے بارے میں خیال نہیں کیا۔ اور بالفض محال یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سوفیصد عوام تبدیلی چاہتے ہیں تو کیا یہ سو فیصد فوج ہی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں یا جمہوری طریقوں پر یقین رکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے اب ہم بڑے ہوچکے ہیں، لہٰذا بچپنا ترک کردینا چاہیے۔
سب کا پاکستان صاحب
آپ نے خواہ مخواہ الطاف بھائی کی تقریر دوبارہ چھاپ دی۔ ہم نے اس کا حوالہ اپنی تحریر میں دے دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جو الطاف بھائی نے کہا وہ حزب اختلاف کے لیڈر کو کہنا چاہییے تھا ناں کہ اقتدار میں شامل ایک پارٹی کے رہنما کو۔
آئین سے جو بھی انحراف کرے اُس پہ بغاوت کا مقدمہ چلنا چاہئیے۔ خواہ وہ سیاستدان ہوں۔ فوجی جرنیل ہوں یا عام آدمی۔
الطاف حسین کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی خطرناک ہے کہ اسمیں فوج کے جوانوں کو اپیل کی گئی ہے ۔ اور نام لئیے بغیر کچھ جرنیلوں کو بُرا اور کچھ کو اچھا کہہ کر جوانوں اور ” کچھ جرنیلوں کو مارشل لاء کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مارشل لاء لگانے کے لئیے فوج کے جوانوں اور جونئیرز کو بغاوت پہ آمادہ کرنے کی ترغیب ملتی ہے اور پاکستانی افواج کے حوالے سے اسطرح کی سوچ پھیلانا ےا تغیب دینا ملک اور افواج پاکستان کے لئیے تباہ کُن ثابت ہوگی۔
🙂
گھبراؤ نہیں ججمان جی مونڈے مانڈے سب آگے آئے جاتے ہیں!!!!!!!!!!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ اور تمام اردو بلوگرز خیروعافیت سے ہونگے۔
کوئی ڈیڑھ سال بعد کسی اردو بلوگ میں تبصرہ کر رہا ہوں۔
مجھے لگتاہے کہ کسی صاحب نے بھی آپ نے الطاف حسین کی جو خبر کی لنک دی ہے، اس میں اس نے سکے جمع کرنے کی بات کی ہے اور اپنی سکوں کی آمدن بھی بتائی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایک غریب شخص کہلوانے والے بندے کی اتنی ساری صرف سکے ہوسکتے ہوں۔آٹھ نو سال میں چالیس لاکھ روپے مالیت کے سکے۔ کوئی 50 ہزار کے لگ بھگ امریکی ڈالر۔
اللہ ہی جانے ان کی غریبی کو۔۔۔۔
کچھ لوگ نام بدل بدل کر بھی اپنی کم عقلی کا ڈھنڈھورا پیٹنے سے باز نہیں آتے!!!!!
او بھائی جب وہ کسی سیونگ باکس میں سکے ڈال رہا ہوگا تب اس نے گنے نہیں ہوں گے،جب سیلاب زدگان کو دینے کے لیئے گنے تب مالیت کا اندازہ ہوا، اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
غریب تو وہ ہے کم سے کم اس ملک کے سوکالڈ قومی لیڈروں کے مقابلے میں تو بے چارہ انتہائی غریب ہے!!!.
Leave A Reply