جب بھی میڈیا پر کوئی ماڈرن لوگ مظاہرہ یا احتجاج کرتے ہیں ان کے نام کیساتھ سول سوسائٹی لگا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس تصویر میں ماڈرن امیر عورتیں سیالکوٹ میں ہونے والے دوہرے قتل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہیں اور انہیں سول سوسائٹی کی ارکان کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی مظاہرے ہوئے انہیں سول سوسائٹی کا نام نہیں دیا گیا۔
ہم نے ادھر ادھر سول سوسائٹي کی جو تعریف معلوم کی ہے اس کیمطابق یہ حکومت سے ہٹ کر سوشل ویلفیئر، چیریٹی وغیرہ کی تنغظیمیں ہوتی ہیں جو مفت کام کرتی ہیں۔
اب سوچنے والی بات ہے کیا سول سوسائٹی کی تعریف پر صرف ماڈرن اور امیر لوگوں کی تنظیمیں ہی پوری اترتی ہیں۔ کیا دوسری تنظيمیں اس تعریف میں نہیں آتیں۔ پاکستان میں کتنی ہی تنظيمیں مفت کام کر رہی ہیں مگر سول سوسائٹی کا لفظ ماڈرن لوگوں کیساتھ ہی کیوں چپکایا جا رہا ہے؟ کیا اس طرح ہم دوسرے سادہ لوح لوگوں کی تضحیک نہیں کر رہے؟ کیا گلی محلے کے لوگ جنہوں نے مختلف تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں وہ سول سوسائٹي کی تعریف پر پورا نہیں اترتے؟
21 users commented in " سول سوسائٹی "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackThis is a serious attitude problem persisting in our country. There is a differentiating line between the poor and rich and the very rich (elite class) and this is the social dilemma.
یوں تو انسانیت کسی کی میراث نہیں،
اور اگر ایلیٹ کلاس انسانیت پر مبنی کوئی تحریک چلاتی ہے تو یہ ایک مثبت نقطئہ آغاز کہلانا چاہیئے،کہ ایلیٹ کلاس سے انسانیت کی توقع لوگ کم ہی کرتے ہیں،
باقی میڈیا تو ان تمام تنظیموں کی رپورٹنگ کررہا ہے جو سیلاب زدگان کی مدد کے لیئے آگے آگے ہیں خواہ وہ مزہبی تنظیمیں ہوں سیاسی تنظیمیں ہوں یا دوسری این جی اوز،
اب اگراس اشو پر بھی دیگر لوگ آواز بلند کریں گے تو انہیں بھی پروجیکٹ کیا جائے گا!!!
آپ کبھی کبھی عجیب عجیب سے اشوز اٹھا لیتے ہیں جو اشوز کم اور نان اشوز ذیادہ ہوتے ہیں!!!!
اصل اشو یہ ہے!
مردوں والی بات
اسد علی | 2010-08-25 ، 5:22
کئی برس پہلے کراچی میں میں پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کے اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سینما میں ایک پنجابی فلم دیکھنے گیا۔ فلم میں ایک جگہ ایک اہم خاندان اپنے ایک فرد کے قتل کا بدلہ لینےکی حکمت عملی پر غور کر رہا تھا۔
اس منظر میں زمین پر بیٹھا ہوا ایک کمزور سا شخص اٹھ کر باریک آواز میں پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ چوہدری صاحب کا بھاری جسم غصے سے کانپ جاتا ہے اور وہ چارپائی سے اٹھ کر اپنی گرجدار آواز میں زمین و آسمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دشمنوں کے پرچے کٹوانا ان کی برادری کی ریت نہیں۔ سینما ہال اس برادری کو لوگوں کی تالیوں سےگونج اٹھتا ہے۔
اب تشدد فلموں نے معاشرے کو دیا یا فلمیں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ شہر ہو یا دیہات تشدد کی صلاحیت رکھنا اور کرنا پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کی نظر میں فخر کی بات ہے۔
کافی دیر بعد لاہور میں رپورٹنگ شروع کی تو ابتدائی چند روز میں ضلع کچہری میں ایک روز موقع دیکھ کر قتل کے ایک مقدمے کے ملزم سے گپ شپ لگائی۔ وہ کچہری میں پیشی کے لیے خاص طور پر تیار ہو کر آئے تھے۔ بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار میں ملبوس وہ نوجوان ہلکے ہلکے کش لگا رہا تھا۔
ان کے خاندان کے مرد و خواتین دسترخوان بچھائے بیٹھے تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ وہ ان کی رہائی کا دن بھی نہیں تھا بلکہ ابتدائی پیشی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس نوجوان لڑکے کے ساتھ آئے ایک شخص نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ‘مردوں’ کو پھر یہ سب کچھ تو دیکھنا پڑتا ہے۔
سیشن کورٹ لاہور میں ایک بار ایف آئی اے والوں نے کسی کو ضمانت مسترد ہونے پر عدالت سے باہر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو جھگڑا ہو گیا۔ ایف آئی اے کے اہلکاروں کو مارنے میں وہاں سے گزرتے ہوئے ہر دوسرے وکیل نے حصہ لیا۔ معاملہ سیشن جج کی عدالت تک پہنچا جہاں کارروائی کے دوران بھی اہلکاروں کی مار پیٹ جاری رہی۔
اتنے میں ایک سینیئر وکیل صاحب بھی وہاں پہنچ گئے جو بعد میں اہم عہدوں پر منتخب بھی ہوئے۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا تو کسی جونیئر وکیل نے کہا کہ ان اہلکاروں نے وکیل صاحب سے بدتمیزی کی ہے۔ ‘وکیل صاحب سے بدتمیزی، تو پھر یہ ابھی تک زندہ کیوں ہیں’ ان کا برجستہ جواب تھا۔
لاہور میں سکول کے زمانے میں گھر کے پاس سٹور سے کچھ خریدنے گیا تو وہاں ایک صاحب دکان والے ان ‘گیموں’ کے بارے میں بتا رہے تھے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ ‘گیموں’ سے مراد وہ تشدد کے وہ طریقے تھے جو انہوں نے مختلف موقعوں پر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیے۔
المختصر یہ کہ اس طرح کے کئی آنکھوں دیکھے اور سنےہوئے واقعات یاد کر کے سیالکوٹ کا واقعہ اپنی تمام تر سفاکی کے باوجود انتہائی غیر متوقع نہیں لگتا۔ ہم میں سے ہر ایک نے ہمیشہ سے خاندانی دشمنیوں کے قصے سنے ہوں گے جن میں دشمنوں کی لاشوں پر بھنگڑے ڈالے گئے، لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دریاؤں میں بہا دیے گئے، ٹکڑے زمین میں دبا دیے گئے، عورتوں کو بازاروں میں ننگا گھمایا گیا وغیر وغیرہ۔
یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سیالکوٹ والا واقعہ بھی کئی لوگوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں ہوگا۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار تو کریں گے لیکن ساتھ اضافہ بھی کر دیں گے کہ ذات برادری کے جھگڑوں میں اور مردوں کی لڑائی میں یہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اس لیے آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اس واقعے کے ملزمان کو سزا کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر بگاڑ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
جی ۔ یہ ملک بنا ہی اُچے تے سُچے لوگوں پہ صدے واری جانے کے لئیے تھا، اس ملک میں کبھی انقلاب آیا۔ تو سب سے پہلے اس اُچی تے سُچی اپر کلاس کے صدقے واریوں کا حساب لیا جائے گا۔
پھنس گئے سینگ۔؟
اور یہ ہے!
کچے کے علاقے میں مختلف قبائل اور برادریوں کے اختلافات اور تنازعات بھی ایک بڑے عرصے سے رہے ہیں، ان کی جھلک ریلیف کیمپوں کے اندر اور باہر بھی نظر آتی ہے۔
خیرپور کے ایک پرائمری سکول میں کشمور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے متاثرین پہلے سے موجود تھے کچھ روز بعد اسی علاقے کے کچھ اور متاثرین کو اسی سکول میں رہائش فراہم کی گئی مگر پہلے سے موجود متاثرین نے انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ اس برادری سے ان کی نہیں بنتی انہیں وہ رہنے نہیں دیں گے انتظامیہ کے سخت رویے کے بعد دونوں برادریاں ایک جگہ رہنے پر مجبور ہوگئیں۔
نوشہرو فیروز کے کچے کے علاقے میں جب ایک کشتی کچھ لوگوں کو ریسکیو کرنے جا رہی تھی تو ملاح برداری کے ایک شخص کو اس بنیاد پر اتارا گیا کہ وہ کشتی کلھوڑا برادری کے گاؤں میں جارہی تھی جہاں باہر کے آدمی کا داخلہ منع تھا۔
سکھر کے ایک کیمپ کے باہر کچھ نوجوانوں کو یہ اعتراض تھا کہ تمام قبائل اور برادریوں کو ایک ساتھ خیمہ فراہم کیے جارہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ خیمہ کی تقسیم برادریوں کے سطح پر ہونے چاہیے تھی ہر کسی کا اپنا محلہ ہونا چاہیے تھا۔
جل تُوںم جلال تُوں، آئی بلا ٹال تُوں۔
گوندل بقلم خود،
جب تک جناب کی جیسی بڑی بلائیں موجود ہیں پاکستان کو کسی بلا سے نجات ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے!
عبداللہ صاحب
آپ کو اگر اختلاف ہے تو موضوع پر کیجیے ناں کہ ادھر ادھر کی تحاریر کاپی کرنی شروع کر دیں۔ اس طرح اصل موضوع درمیان میں ہی رہ جاتا ہے اور بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔
عبد اللہ
آپ کی چولیں ڈھلی ہیں۔ لیکن لاعلاج نہیں۔
آپ جتنی جلدی ہوسکے حکیم نوری نتھ سے رابطہ کریں۔
موضوع پر اختلاف میں پہلے کرچکا تھا،آپ نے شائد غور نہیں کیا اور یہ ادھر ادھر کی نہیں اسی اشو پر بات تھی سولکھ دی،
خوامخواہ تم اپنی ہلی ہوئی چولوں کا پہلے علاج کروالو پھر دوسروں کو مشورہ دینا!
عموما سول سوسائٹی سے مراد غیر حکومتی اور غیر کاروباری تمام حلقے لیے جاتے ہیں، لیکن یہ حدیں کوئی بہت زیادہ واضح نہیں۔ مثلا کبھی مختلف تاجر انجمنوں کو سول سوسائٹی سمجھا جاتا ہے کبھی نہیں۔
جو تصاویر آپ نے دی ہیں وہ بھی احتجاج ریکارڈ کرانے کا ایک ذریعہ ہی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ لبنان پر اسرائیلی حملے پر ہم نے کینبرا، آسٹریلیا میں احتجاج کئی بے ضرر طریقوں مثلا شمعیں روشن کر کے اور وزیر اعظم کو خط لکھ کر کیا اور یقینا اسکا اثر بھی ہوا۔
پاکستان کی سول سوسائٹی نوزائدہ شکل میں ہے، وقت کے ساتھ لوگوں اور صحافیوں کو زیادہ بہتر اندازہ ہو جائے گا۔
عبداللہ کو ذہنی بیمار سمجھ کر نظر انداز کرلیا کریں۔
سول سوسائٹی کے مضموع پر ایک اچھا نکتہ اُٹھایا ہے۔ سول سوسائٹی ارکان کے لیے امیر و غریب کا تو نہیں پتا البتہ جینز پہننا لازمی ہے۔ خواتین اگر اپنے آپ کو سول سوسائٹی کے ارکان کہلانا چاہتی ہیں تو انہیںپرے کپڑے پہننے سے گریز کرنا ہوگا۔
تصیح فرمالیں
خواتین اگر اپنے آپ کو سول سوسائٹی کی ارکان کہلانا چاہتی ہیں تو انہیں پورے کپڑے پہننے سے گریز کرنا ہوگا۔
باقی شہروں کا ميں نہيں کہتا البتہ اسلام آباد ميں جسے ذرائع ابلاغ سول سوسائٹی کے طور پر لکھتے ہيں وہ روشن خيال لوگ ہيں جو اپنے تابع اسلام کے خواہاں ہيں اور باعمل مسلمان کو انتہاء پسند سمجھتے ہيں ۔ يہ لوگ ہوٹلوں ميں اجلاس کرتے ہيں جو دراصل گپ شپ ٹی پارٹی يا ڈنر ہوتا ہے ۔ دوسرے دن عوام يا غرباء کے حق ميں ميٹنگ کی خبر چھپ جاتی ہے ۔ ميں ان لوگوں ميں سے بہت کو جانتا ہوں ۔ اور ان کے عہديداروں سے ميری بحث بھی ہو چکی ہے ۔يہ لوگ ہيں گفتار مومناں اور عمل کافراں
اچھا نقطہ اٹھایا ہے. پاکستان میں سول سوسائٹی کا مطلب مغرب پرست اور آزاد خیال شعراء، دانش ور، وکلا، سماجی کارکن، ادارکار اور خواتین میں بے راہ روی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف عمل این جی اوز کے لئے استعمال ہوتا ہے. ان کے اجلاس عام طور پر بڑے فائیو اسٹار ہوٹل کے ائیر کنڈیشن روم میں ہوتا ہے.
http://thenews.com.pk/28-08-2010/National/1738.htm
میں افتخار اجمل صاحب۔ کاشف نصیر صاحب۔ ابو سعد تلخابہ صاحبان کی پاکستان میں سول سوسائٹی کی تعریف سے بڑی حد تک اتفاق کرتا ہوں ۔ صرف اتنے اضافے کے ساتھ کہ ہمارے میڈیا نے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کی بحالی کے دوران وکلاء اور کچھ دیگر طبقوں کو بھی سول سوسائٹی کا ۔۔رتبہ۔۔ عطا کیا تھا۔ جو غالبا ججز کی بحالی کے ساتھ ہی وکلاء اور دیگر سے یہ رُتبہ واپس لے کر ۔ پاکستان کی اصل “سول سوسائٹی“ کو واپس کردیا گیا جس کی تعریف اوپر افتخار اجمل صاحب۔ کاشف نصیر صاحب۔ ابو سعد تلخابہ صاحبان نے کی ہے۔
اب یہ الگ بات ہے ایسی تعریف کرنے پہ ان صاحبان کو ۔۔انتہاء پسند۔۔ مذھب پسند۔۔ قدامت پسند۔۔ اور خدا جانے کیا کیا القابات سے نواز کراردو بلاگنگ پہ سول سوسائٹی کے اُچے تے سُچے تفاخر کی بیماری میں مبتلاء چند ُ ُمہذب،، نمائیندے ان کو اپنے تئیں ۔۔ ڈی ویلو۔۔ قرار دیں۔
تلخابہ، صحیح کہاذہنی بیمار کو سب ذہنی بیمار ہی نظرآتے ہیں!
جواب نہ بن پڑے تو تم جیسے لوگ اسی طرح دوسروں کو پاگل کہہ کہہ کر اپنا دل ٹھنڈا کرتے ہیں،
ورنہ ثابت کرو کہ اوپر لکھی باتوں میں سے کونسی بات ذہنی بیماروں والی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ویسے مجھے نہیں معلوم کہ جینز کس طرح برے لباس میں آتی ہے اور باقی جنہیں کوئ اچھا لباس کہتا ہے وہ کسطرح اچھے لباس میں آتے ہیں۔ آیا لاچا پہننا اچھا لباس ہے اور اسکرٹ پہننا برا لباس ہے۔ قمیض جسے انگریزی میں شرٹ کہتے ہیں وہ برا لباس ہے اور اردو میں شلوار قمیض پہننا اچھا لباس ہے۔ واءو ایسے خیالات رکھنے والے لوگ بیٹھ کر یہ طے کریں گے کہ قوم کو کیا کرنا چاہئیے۔ ایسی ہی باتیں اس منافقانہ کلچر کی بنیاد ہیں جس پہ ہم میں سے کچھ بڑا فخر کرتے ہیں۔
میرا پاکستان صاحب، سول سوسائیٹی آپ نے صحیح کہا کہ نان گورنمنٹ اداروں سے وجود میں آتی ہے۔ کراچی میں اورنگی ٹآئون کا علاقہ اسکی مثال ہے کہ لوگوں نے کیسے اپنی مدد آپکے تحت سیوریج سے لے کر اسکول اور ہسپتال اور اپنے روزگار کے ذرائع بنائے۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نے لوگوں کے سوچنےکے انداز کو متائثر کیا۔ میرے والد صاحب جب حیات تھے تو انہوں نے اس طرح کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور اپنے علاقے کے بیشتر مسائل کو لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ اس طرح حل کیا کہ ہمارے علاقے نے آہستہ آہستہ کافی سہولیات حاصل کیں۔
پسماندہ علاقوں کے لوگ اگر باہمی تعاون کے ایسے پروجیکٹس پہ کام شروع کریں تو وہ انکے لئئے زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں۔ مگر کراچی کی بد قسمتی یہ ہے کہ جو لوگ یہاں دوسری جگہوں سے آ کر آباد ہوئے ہیں وہ اسے صرف روزگار کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی میں آسانی کے لئے اس طرح کے کسی خیال سے آشنا نہیں۔ اس طرح سے یہاں مسائل دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔
ماڈرن خواتین کے بجائے آپکو کہنا چاہئیے کہ طبقہ ء اشرافیہ کو لوگوں کے کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جینز یا ٹی شرٹ پہن لینا کوئ ماڈرنزم نہیں۔ البتہ فرج میں کھانا ٹھنڈا کر کے کھانا اور کمپیوٹر استعمال کرنا ماڈرن ہونے کی علامت ہے۔ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ماڈرن ہونا ہے۔ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو بلا تفریق تعلیم اور زندگی کے مواقع مہیا کرنا ماڈرن ہونا ہے۔ علاج اور زچگی کے لئے ہسپتال جانا ماڈرن ہونا ہے۔ بچوں کی ویکسینیشن کروانا ماڈرن ہونا ہے۔ اور جب انسان اس قابل ہوجائے گا کہ اسٹیم سیل سے اپنے اعضاء پیدا کر سکے تو اپنا دل خود اگا کر اسے اپنے سینے میں پرانے دل کی جگہ لگوانا ماڈرن ہونا ہوگا۔
طبقہء اشرافیہ ، اپنی دولت سے لے کر اپنی ہر چیز اپنی ہر بات کی ستائش چاہتا ہے۔ انکے تمام افراد ایکدوسرے سے جڑے ہوتے ہیں کہ معیشت کے بیشتر ذرائع انکے قابو میں ہوتے ہیں۔ کوئ شخص اگر ان سے ہٹ کر اس قسم کے کام کرنا چاہے تو اسکے لئے مشکل ہوتی ہے۔ پھر ان لوگوں کے بیرون ملک فنڈنگ کرنے والے اداروں سے ذاتی بنیادوں پہ رابطے ہوتے ہیں تو یہ اس طرح پاکستان میں سول سوسائیٹی کے اوپر بھی حکومت کرتے ہیں۔ فنڈ حاصل کرنے کے لئے کچھ کام بھی کر کے دکھانا ہوتا ہے تو ایسے واقعات کے وقت یہ لوگ سامنے آتے ہیں۔ ۔ ہمارا نظام ایسا ہے کہ لا محالہ اپنے مسائل کے حل کے لئے انہی لوگوں کا اثر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مایا کو مایا ملے ، کر کر لمبے ہاتھ۔ یہ تو سنا ہوگا۔
عنیقہصاحبہ
آپ کی بات درست ہے اور اسی لیے ہم نے ماڈرن کیساتھ امیر کا لاحقہ لگا دیا تھایعنی ماڈرن امیر۔
Leave A Reply