اس وقت ملک میں دو متوازی حکومتیں اس طرح حکمرانی کر رہی ہیں جیسے پاکستان دو حصوں میں بٹ چکا ہو۔ لگتا ہے 2008 کے انتخابات کے بعد جو پلان ہم پر تھوپا گیا وہ یہ تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہو گی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی۔ حزب اختلاف کی گردن توڑنے کیلیے اے این پی، جمعیت علمائے السلام ف، ایم کیو ایم کو مرکز اور صوبوں میں بھی حصہ دے گیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مطلق العنانیت کی طرح سول ڈکٹیٹرشپ ملک پر ذبردستی نازل کر دی گئی۔ یعنی نہ حزب اختلاف ہو اور نہ احتساب، مرکز بھی من مانی کرے اور مسلم لیگ ن کا بھی منہ بند رہے۔

اس سیٹ اپ کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں لسانیت بڑھتی جا رہی ہے اور بقول شعیب صفدر کے ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے پاکستانی نہیں پنجابی،بلوچی، مہاجر اور پٹھان کے طور پر پہچانے جانے لگےہیں۔ دوسرے بین الاقوامی حکومتی اہلکار جب پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو وہ مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت کیساتھ متوازی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک کے سفیر بھی یہی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ سیٹ اپ ملک کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے اور ہمیں مزید تقسیم کرنے کی سازش ہے۔