اس دفعہ گرمیوں کے شروع ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا اور لوڈ شیڈنگ شروع بھی کردی گئ ہے۔ ہر دفعہ لوڈ شیڈنگ کا نیا بہانہ گھڑا جاتا ہے۔  گرڈسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن،  پانی کی کمی اور بجلی کی لائنوں کی خرابی عام بہانے ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں اگر گرمی سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا یہ حال ہے تو پھر گرمیوں میں کیا ہوگا۔ کراچی تو پچھلے کئ دنوں سے بجلی کے بحران کا شکار ہے اور انتظامیہ نے یہ کہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کرلی ہے کہ واپڈا کے ای ایس سی کو بجلی کم فراہم کررہا ہے۔ اب پورے ملک میں گرڈسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پانچ گھنٹے تک روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوا کرے گی۔

اگر آج حکومت اسلامی ہوتی یا پھر جمہوری اور مخلص ہی ہوتی تو سب سے پہلے آرمی ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اسلام آباد میں رہنے والے پاکستانی نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام آباد بنا ہی غیرملکیوں کیلیے تھا تاکہ وہ اس خوبصورت اور ماڈرن شہر میں بیٹھ کر وائسرائے کی حیثیت سے ملک پر حکمرانی کرسکیں۔ انہی وائسرائیوں کے صدقے ہمارے حکمران بھی راجاؤں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو پاکستان کی ایلیٹ کلاس انہی خاندانوں کی لڑی ہے جنہیں ہندوستان سے غداری کے صلے میں جاگیریں الاٹ ہوئیں اور وہ راجے مہاراجے کہلائے۔ اب یہی راجے مہاراجے وزیر مشیر ہیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی جونک بن کر چوس رہے ہیں۔ اسلام آباد کے باسی کیا جانیں کہ لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے کیونکہ نہ تو ان کی ہانڈی روٹی اندھیرے میں گلنی سڑنی ہے، نہ ان کے بچوں کو لالٹین کی روشنی میں پڑھنا پڑنا ہے، نہ ان کے کاروبار میں خلل آنا ہے اور نہ ہی ان کی فیکٹریاں بند ہونی ہیں۔

ہمارے ایک دوست لوہے کی ڈھلائی کا کام کرتے ہیں اور وہ لوڈ شیڈنگ کی برائیاں جانتے ہیں۔ جب کٹھالی میں لوہا پگھل کر تیار ہونے کو ہوتا ہے تو بچلی بند ہوجاتی ہے۔ ان کی گھنٹوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے اور ان کے مزدوروں کی دیھاڑی بھی نہیں لگ پاتی۔ اسی طرح دوکانداروں کو اپنی دوکانیں شام کو بند کرنا پڑتی ہیں، کارخانے والوں کو اپنے کارخانے چلانے میں دشواری ہوتی ہے۔ مگر ایلیٹ کلاس کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ نہ کاروباری لوگ شور مچاتے ہیں اور نہ اپوزیشن اس لوڈ شیڈنگ کو ملک کی معشیت کیلئے نقصان دہ  سمجھتی ہے۔

اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں وہ اگر چاہتیں تو کئ ڈيم بنا سکتی تھیں۔ پہلی حکومتوں کو چھوڑیں، موجودہ حکومت کو لوڈشیڈنگ ورثے میں ملی مگر اس نے بھی کوئی پلاننگ نہیں کی۔ اگر جنرل مشرف یا ہمارے ذہین وزیر خزانہ اور وزیر اعظم چاہتے تو ایک آدھ ڈيم سات سال قبل بنانا شروع کرسکتے تھے جو اب تک مکمل ہوچکا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ جنرل صاحب کو شروع میں فری ہینڈ ملا تھا اور اگر وہ چاہتے تو کالاباغ ڈیم کی طرح کے کئی ڈیم بنا سکتے  تھے مگر وہ ایسا کیوں نہیں کرسکے اس راز سے پردہ اٹھنا آسان نہیں ہے۔ ہماری نظر میں سیدھی اور عام سی وجہ یہی ہے کہ اگر جنرل صاحب یا ان کے پیشرو پاکستان میں بجلی کی ترسیل بڑھاتے رہتے تو پاکستان ترقی کی منزلیں جلدی طے کرلیتا جو ہمارے آقاؤں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمارے آقا چاہتے ہیں کہ ہمیں صرف اتنی ہی روٹی ملے جس سے ہم زندہ رہ سکیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں خوشحالی آئے اور اس خوشحالی سے ہم تعلیم سے بہرہ ور ہوکر ان کیلیے چیلنج بن جائیں۔ یاد رکھیں ہمارے آقا نہ ہی ہمیں بھوکا مرنے دیں گے اور نہ ہی پیٹ بھر کر کھانے دیں گے۔ اگر فاقوں تک نوبت آئی تو وہ قرضے معاف کرنے یا موخرکرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اگر خوشخالی کی ذرا سی بھی انہیں بھنک پڑی تو وہ مزید پابندیاں لگا دیں گے۔

آقاؤں کے اپنے ملکوں میں روزمرہ ضروریات کی اشیا سب سے سستی ہیں۔ بجلی، گیس اور پانی وافر مقدار میں موجود ہے اور اسی وجہ سے ان کی صنعتوں نے ترقی کی ہے اور وہ ترقی یافتہ ہیں۔ یورپی آج اسی ماحول میں رہ رہے ہیں جس ماحول میں ہم پچاس سال پہلے رہتے تھے۔ ہمارا مطلب ہے کہ ان کی تنتخواہیں اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں وہی ہیں جو پچاس سال قبل پاکستان میں ہوا کرتی تھیں۔ آج ایک مزدور سینکڑوں میں تنخواہ لیتا ہے اور دھائیوں میں خرچ کرتا ہے۔ ایک عام مزدور کی تنخواہ امریکہ میں پانچ ڈالر گھنٹے سے لیکر تیس ڈالر گھنٹے تک ہے۔ اس تنخواہ کیساتھ ساتھ اسے پٹرول آجکل پونے تین ڈالر فی گیلن مل رہا ہے، ڈبل روٹی دو ڈالر کی ہے، دودھ تین ڈالر کا گیلن ہے، پرانی کار کی قیمت پانچ سو ڈالر سے شروع ہوتی ہے، نیا ٹی وی سو ڈالر ميں بھی مل جاتا ہے، کئی الیکٹرونکس تو میل ان ریبیٹ کے بعد مفت میں مل جاتی ہیں۔ یہ سب ہمارے آقاؤں نے بجلی، پانی اور گیس کی فراوانی سے حاصل کیا ہے۔ کہتے ہیں ملک کی ترقی کیلیے توانائی، کمیونیکیشن اور ذرائع مواصلات کا سستا ہونا لازمی شرط ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے آقا ترقی کررہے ہیں اور ہمیں گرمی میں گلنے سڑنے کیلیے چھوڑ رکھا ہے۔

اے حکمرانو خدا کا خوف کھاؤ اور ملک کی ترقی کیلیے توانائی کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے پلان بناؤ۔  تم ملک پر حکومت کرنے کیلیے جہاں اتنے رسک لیتے ہو وہاں ایک کالا باغ ڈیم بنانے کی ہمت کیوں نہیں کرتے۔ ایٹمی توانائی جو ہم نے حاصل کی ہے اس سے بجلی بنانے میں کونسی قباحت ہے۔ گیس جو ہمارے ملک میں وافر مقدار میں ہے اس سے بجلی کیوں پیدا نہیں کرتے۔ کیا توانائی کی پلاننگ کیلئے تم ملک اور بیرون ملک سے پاکستانی ڈاکٹروں، انجنیروں اور بزنس مینوں کو اس کام پر نہیں لگا سکتے؟ اگر آئی ایم ایف سے حکومت کے اخراجات چلانے کیلیے قرضہ لے سکتے ہو تو پھر توانائی کے حصول کیلیے قرضہ کیوں نہیں لیتے۔ اگر نج کاری کے چکر میں کمیشں بناسکتے ہو تو پھر توانائی کے ٹھیکے چلو کمیشن بنانے کیلیے ہی دے دو اور اگر تم اس کمیشں کے لالچ میں ہی ملک کا ہھلا کردو تو بھی لوگوں کو منظور ہوگا۔

ہمارے تجزیہ نگار کتنے عرصے سے شور مچا رہے ہیں کہ اگرنئی بجلی کے حصول میں مزید تاخیر کی گئ تو ملک چند سالوںمیں اندھیروں میں ڈوبنے کے قریب پہنچ جاۓ گا۔ اب بھی وقت ہے ہم توانائی کے حصول کی کوشش کریں اور اس لوڈ شيڈنگ سے جو ہمارے لیے زہر قاتل ہے سے چھٹکارا حاصل کریں۔ پتہ نہیں ہمیں اتنی عقل کب آۓ گی کہ ہم معاشی ترقی کے ان بنیادی اصولوں کو سمجھنے لگیں گے۔