یھ سوال ہمارے ذہن میں کافی عرصے سے الجھن پیدا کیے بیٹھا ہے اور دن بدن اس الجھن میں اضافہ ہی کررہا ہے۔

آئیں سب سے پہلے سود کی تعریف کریں۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ جس کاروبار میں پروڈکٹ اپنی شکل نہ بدلے اور لینے دینے والے پر نفع نقصان کی بجائے ایک مستقل منافع ڈال دیا جائے اسے سود کہتے ہیں۔ جنس کے بدلنے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ آپ نے ایک جنس کے بدلے دوسری جنس خریدی یا بیچی۔ یعنی اگر آپ نے رقم دے کر منافع کے ساتھ رقم واپس لے لی تو اس کا مطلب ہے کہ پروڈکٹ نہیں بدلی۔

اسلام میں سود لینا اور دینا منع فرمایا گیا ہے۔ یہ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے اور یہ بھی ارشاد ہے ک سود مسلمانوں کے لیے سراسر گھاٹے کا کام ہے۔

اب موجودہ زمانے کے کچھ محققین کہتے ہیں کہ سود کو حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ ناپسند فرمایا ہے اور اس کے لین دین سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ سود لینا اور دینا اسلام میں حرام ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام آنے کے بعد کتنے عرصے تک بلاسودی نظام چلتا رہا اور کب سب سے پہلے کس اسلامی مملکت یا کس اسلامی حکمران نے بلاسودی نظام ترک کیا اور کیوں۔ ہم تو پچھلے پچاس سال میں زیادہ تر پاکستان اور عموماً باقی اسلامی دنیا میں بلاسود بنکاری یا نظام کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہمیں تو اب تک کسی جگہ بھی کوئی ایسا بنکاری ماڈل نظر نہیں آیا جسے ہم مکمل بلاسودی نظام کہ سکیں۔

اس بحث سے قطع نظر سود حرام ہے یا خدا اور اس کے رسول صلعم کو ناپسند ہے یا یہ نقصان دہ ہے، آئیں پہلے یہ دیکھیں جو موجودہ بلاسود بنکاری دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں ہورہی ہے وہ ٹھیک ہے کہ نہیں اور پھر بعد میں يہ طے کریں گے کہ بلاسود بنکاری اس دنیا میں ممکن بھی ہے کہ نہیں۔ اس نقطے کی وضاحت سے ہم پہلے یہ واضح کردیں کہ ہمیں اس موضوع پر اپنے قارئین کی مدد کی اشد ضرورت ہوگی جو ملکر کچھ شواہد اور کچہ تجربات کی روشنی میں ہماری بات کو آگے بڑھائیں گے۔

پاکستان میں سب سے پہلے اسلامی نظام کی کھل کر بات فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا نے کسی مصلحت کی بنا پر کی اور اسلامی نظام کے کچھ حصوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ اسی سلسلے میں جنرل ضیا نے بنکوں میں بلاسودی کھاتے بھی کھولے۔ اس سے پہلے پاکستانی بنک ہر آدمی کو سال کے آخر میں ایک فکس منافع دیا کرتے تھے جو بعد میں ہرسال ایک آدھ پیسہ کم یا زیادہ کرکے دیا جانے لگا اور اسے بلاسود بنکاری کا نام دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے یہ صرف بنکاری کا ایک حصہ تھا۔ بنکوں کے سارے کاروبار کو سود سے پاک نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنرل ضیا کا بلاسودی کھاتوں کا نظام بھی سود سے پاک نہیں تھا۔

پاکستان اور باقی دنیا میں بلاسودی بنکاری اب کیسے ہورہی ہے اس پر قائین اگر روشنی ڈالیں گے تو بات کو آگے بڑھایا جاسکے گا اور ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی کہ یہ نظام واقعی سود سے پاک ہیں یا نہیں۔

 کینیڈا اور امریکہ میں کچھ عرصے سے بلاسود مورٹگیج کا نظام رائج ہے جسے یہ لوگ اسلامی مورٹگیج کا نام دیتے ہیں او یہ کاروبار مسلمانوں کی کافی تعداد کے ہونے کی وجہ سے منافع بخش بھی جارہا ہے۔ اس کاروبار کیلیے رقم مسلمانوں سے انویسٹ کرائی جاتی ہے اور انہیں سال کے آخر میں ان کا منافع ادا کردیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سود پر رقم ادھار لینے کی بجائے، آپ کی پیشگی رقم کے علاوہ باقی گھر کی قیمت خود ادا کرکے مکان اپنے نام کرا لیتے ہیں اور آپ سے تب تک مکان کے اس حصے کا کرایہ لیتے رہتے ہیں جو ابھی پیشگی رقم کی ادائیگی کے بعد آپ کی ملکیت نہیں ہوا۔ اس دوارن آپ مکان کے کرائے کیساتھ ساتھ کچھ اضافی رقم ادا کرکے اس مکان کی ملکیت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح  مکان کا کرایہ کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک آپ مکان کی پوری قیمت ادا نہیں کردیتے۔ اس کاروبار میں آپ کو مورٹگیج کی شرح منافع سے زیادہ رقم دینا پڑتی ہے مگر آپ مطمئن ہوتے ہیں کہ آپ سود سے بچے ہوئے ہیں۔ اس کاروبار میں کچھ شرائط اس طرح طے کی جاتی ہیں کہ کمپنی کا سرمایہ ڈوبنے کے کم چانسز ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی آفت یا مکان کی قیمت کےکم یا زیادہ ہونے کی صورت میں منافع پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے اور یہ آپ کی اور کمپنی کے موجودہ حصص کے مطابق نہیں ہوتا۔ پھر مکان کا پراپرٹی ٹیکس بلاسود مورٹگیج لینے والا دیتا ہے حالانکہ یہ ٹیکس بھی ہر ایک کے حصے کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔ اسی طرح مکان کی مرمت بھی آپ ہی کے ذمے ہوتی ہے۔ ہماری نظر میں یہ سب فراڈ اور دھوکہ ہے اور مسلمانوں کو بلاسود بنکاری کے نام سے لوٹا جارہا ہے۔ یہ صرف اسی طرح نام بدلنے کی کاروائی ہے جس طرح جنرل ضیا نے بنکوں کے کھاتوں کے نام بدل کر سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور اپنے مزہب کیساتھ بھی فراڈ کیا۔

اب اگر موجودہ عالمی معاشی سیٹ اپ کو دیکھیں تو ہمیں کوئی ملک، کوئی صنعت، کوئی کاروبار اور کوئی گھر سود سے پاک نظر نہیں آتا۔ ملکی لیول سے اگر جائزہ لینا شروع کریں تو سعودی عرب تک قرضدار ہے اور وہ اس قرض پر سود ادا کررہا ہے۔ اب یہ سود کے قرض کی رقم سعودی حکومت اپنے ملک میں ہی خرچ کرتی ہوگی اور یہ ہرشہری تک پہنچتی ہوگی۔ پاکستان بھی اتنا اربوں روپوں کے قرض تلے دبا ہوا ہے کہ اس کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ایک وقت تو کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان قرض نہ لے تو وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ تک ادا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کیا دنیا کی ساری اسلامی مملکتوں میں صنعتوں کی اکثریت سود پر رقم ادھار لے کر کاروبار کررہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ملازمین کو جو تنخواہ دی جاتی ہے اس میں سود شامل ہوتا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ جو بھی رقم ہماری جیب میں آتی ہے اس میں سود کی کچھ نہ کچھ ملاوٹ ہوتی ہے اور ہم سود سے پاک رقم سے اپنی کھانے پینے کی اشیا نہیں خرید رہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے کھانے پینے میں بھی سود کی ملاوٹ شامل ہے۔

اب آئیں اس بات پر غور کریں کہ اس سودی دور میں کیا بغیر سود کے کاروبار ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ہماری نظر میں بلاسودبنکاری کیلیے سب سے پہلی شرط معاشرے کی اقدار کا ٹھیک ہونا ہے یعنی معاشرے میں دھوکہ فریب، بے ایمانی اور چور بازاری قطعاً نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سودی نظام رائج ہی اس وقت ہوا تھا جب ایک آدمی کا دوسرے آدمی سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ قرض دینے والے کو یہ یقین نہیں رہا تھا کہ قرض لینے والا انصاف کیساتھ اس کے کاروبار میں لگائی گئ اس کی رقم کا کاروبار میں منافع کی بنیاد پر پورا پوراحصہ دے گا۔ جب اسے قرض لینے والے کی نیت پر شک ہوا تو اس نے قرض پہلے سے طے شدہ شرائط پر دینا شروع کردیا جسے بعد میں سود کا نام دے دیا گیا۔

ہم نے کچھ عرصہ قبل فضایئہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کیساتھ اس کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔ ہم نے اس شخص پر اسلیے اعتبار کرلیا کہ وہ ہمارے بھائی کا فضائیہ میں ساتھی اور پھر بعد میں دوست تھا۔ اس نےاپنی نوکری کے دوران کئ عمرے اور حج بھی کررکھے تھے۔ وہ باریش اور پانچ وقت کا نمازی تھا۔ اس کی ویگنیں راولپنڈی اور واہ کینٹ کے درمیان چلا کرتی تھیں۔ اس نے ایک ویگن خریدی اور ہم نے صرف اسی ویگن میں اپنا پچیس فیصد حصہ نفع نقصن کی بنیاد پرڈال لیا۔ چند ماہ بعد اس کی ایک دوسری ویگن میں آگ لگ گئ اور اچھا خاصا نقصان ہوگیا۔ اسی دوران ہمیں اپنی رقم کی ضرورت پڑی اور ہم نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کردیا۔ وہ کہنے لگا کہ ویگن کو تو آگ لگ گئ ہے اور تمہارا ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے جب اسے یاد دلایا کہ ہمارا حصہ تو دوسری ویگن میں ہے تو وہ جلال میں آگیا اور کہنے لگا کہ اس کے پاس ابھی رقم نہیں ہے اور جب ہوگی دے دے گا۔ یقین مانیں وہ رقم واپس لینے میں ہمیں دوسال لگ گئے اور اس دوران اس نے ہمیں منافع دینا بھی بند کردیا۔

اسی بداصولی اور بے اعتباری پر قابو پانے کیلیے سود متعارف ہوا اور لکھت پڑھت شروع کردی گئ۔ یہ الگ بات ہے کہ بااثر لوگ بنکوں سے سود پر لی گئ رقم سود دینے کی بجائے ساری کی ساری رقم ہڑپ کرجاتے ہیں اور حکومت بعد میں انہیں معاف بھی کردیتی ہے۔ صدر مشرف کے دور میں جہاں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے معاف کرائے گئے وہیں لوگوں کو سب سے زیادہ رقم سود پر قرض دی گئ جس سے لوگوں نے اشیائے ضرورت یعنی کاریں، ٹی وی، فریجیں اور پتہ نہیں کیا کیا خرید کر اپنی جان بنیے کے قبضے میں دے دی۔ اب تو سنا ہے آپ اپنی شادی بھی قرض لیکر کراسکتے ہیں۔

ہماری نطر میں دنیا اس وقت خرافات میں کھو چکی ہے جہاں قدم قدم پر دھوکہ اور فراڈ ہورہا ہے۔ لوگ زبانی وعدوں سے پھر رہے ہیں۔ سودا کرکے مکرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ ہرکام رشوت اور سفارش کے بغیر ممکن نہیں رہا۔ فراڈ کے بہت سارے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ جس معاشرے میں اتنی زیادہ برائیاں ہوں وہاں بلاسود بنکاری ناممکن ہے اور جو بھی اپنے کاروبار کو بلاسود بنکاری کہتا ہےاگر اس کے کاروبار کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا کاروبار بلاسود کاروبار کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔

معاشرے میں بلاسود بنکاری کا نظام رائج کرنے کیلے پہلے معاشرے کو آئیڈیل معاشرہ بنانا ہوگا اور یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جتنا جنرل صدر مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلیے  اپوزیشن کا متحد ہو کر جدوجہد کرنا۔