آج وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کیساتھ معاہدہ بس ہونے ہی والا ہے۔ اس معاہدے کو آخری شکل دی جارہی ہے۔ حیرانی والی بات یہ ہے کہ نہ بھارتی عوام کو پتہ ہے کہ معاہدے میں بھارت کیا کھوئے گا اور کیا پائے گا اور نہ پاکستانی عوام کو۔ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ کشمیری عوام جن کے مستقبل کا سودا ہورہا ہے انہیں بھی کوئی خبر نہیں کہ ان کی خرید و فروخت کس حساب سے ہورہی ہے اور اس میں کون شامل ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد فاتح ملکوں نے اپنے مقبوضہ علاقے اپنی مرضی سے تقسیم کرلیے اور اس کے بعد یہ رواج چل نکلا کہ جہاں بھی کسی کا قبضہ ہے وہ وہاں کے عوام کو پوچھے بغیر ان کی قسمت کا فیصلہ کرلے۔ فلسطین کی تقسیم اسی اصول پر ہوئی، برطانیہ نے نوآبادیوں کو آزاد کرکے ان پر اپنی مرضی کے حکمران مسلط کردیے، افغانستان پر قبضہ کرنے والے اپنی مرضی کی حکومتیں لاتے رہے، اور اب عراق میں بھی قبضہ کرنے والوں کے حامیوں کی حکومت ہے۔ صرف چند مواقعوں پر عوام کی قسمت کا فیصلہ رائے شماری سےکیا گیا ان میں سب سے تازہ فیصلہ مشرقی تیمور کے علاقے کی آزادی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں بھی آزادی کی تحریکیں جاری ہیں کسی نے بھی وہاں کے عوام کی مرضی جاننے کی کوشش نہیں کی۔
روس نے کتنی ہی ریاستیں آزاد کردیں مگر چیچنیا کا عزاب پالے بیٹھا ہے اور وہ چیچن عوام کو آزاد نہیں کررہا۔ اسی طرح بھارت نے پہلے آسام کی تحریک کو کچلا اور اس ریاست کو ہندوستان میں شامل کرلیا، پھر سکھوں کی تحریک دبائی اور عام تاثر یہی ہے کہ اس وقت کی پاکستانی وزیراعظم بینظیر نے سکھ مزاحمت کاروں کی لسٹیں مہیا کر کے سکھوں کی تحریک کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اس کے بعد کشمیر کی تحریک شروع ہوئی جس کی پاکستان نے بھرپور حمایت کی اور ایک دفعہ تو یہاں تک کہا جانے لگا کہ کشمیری مجاہدین کی مدد کرکے پاکستان مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بدلہ لے سکتا ہے۔ مگر نو گیارہ کے بعد حالات ایسے بدلے کہ پاکستان جو پہلے ہی کارگل سے پسپائی اختیار کرچکا تھا کشمیری مجاہدین کی مدد جاری رکھنے سے بھی دستبردا ہوگیا۔ اب کچھ عرصے سے یہی کہا جارہا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ کشمیر کا مسئل حل ہوجائے تاکہ ایک طرف بھارت کو اپنی بالادستی قائم کرنے کا موقع مل جائے اور دوسری طرف پاکستان کے پاس ایٹمی اسلحہ رکھنے کا کوئی جواز نہ رہے۔
اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور یہ فیصلہ اسی طرح ہونے جارہا ہے جس طرح جانوروں کی منڈی میں دو تاجر مویشیوں کا سودا کرتے ہیں اور مویشی بناں کسی چوں چراں کے اپنے نئے مالک کیساتھ چل پڑتے ہیں۔ کشمیریوں کی تقدیر بھی اسی طرح لکھی جارہی ہے۔ نہ عوام سے رائے شماری کرائی جارہی ہے، نہ ان کے سامنے مسئلے کا متوقع حل پیش کیا جارہا ہے اور نہ ہی ان کو اس بات چیت میں شامل کیا گیا ہے۔
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہماری پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے کہ نہیں۔ حزب اختلاف بھی اتنے اہم مسئلے پر کوئی سٹینڈ لینے پر تیار نظر نہیں آتی اور نہ ہی ان سے امید ہے کہ وہ آمریتی قوتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے خلاف کوئی احتجاج کرے گی۔
ہم اس سے پہلے کئی بار لکھ چکے ہیں کہ عوام کی بے حسی کی وجہ سے موجودہ حالات اس قدر سازگار ہیں کہ اگر ہماری موجودہ فوجی حکومت سارے ملک کو بھی بیچ دے تو پھر بھی کوئی نہیں بولے گا۔ یہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت، این ایف سی ایوارڈز پر اختلاف اور جامعہ حفصہ کے مسئلے پر حکومت کی خاموشی سب ٹوپی ڈرامے ہیں۔ اس وقت حکومت اگر چاہے تو اپنی مرضی سے ملک کو گروی رکھے، اسے بیچے یا اسے پسماندہ رکھنے کے اقدامات کرے، کوئی نہیں بولے گا۔ مولوی وزارتوں کے حلوے کھاتے رہیں گے، سیاسی جماعتیں اگلی حکومت میں شامل ہونے کی دوڑ میں لگی رہیں گی، ہماری فوج سول اداروں پر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے گی اور عوام بیچارے افیم کی گولیاں کھا کر دن رات خوابوں میں آسمانوں میں اڑتے رہیں گے۔
پہلے ہم سوچا کرت تھے کہ فوج کی بقا کیلیے کشمیر کا مسئلہ زندہ رکھنا ضروری ہے مگر اب بنگلہ دیش کے حالات جان کر معلوم ہوا کہ فوج اب کسی مسئلے کے بغیر بھی حکومت کرسکتی ہے۔ اب حالات اسقدر بدل چکے ہیں کہ حاکموں سے کوئی حساب لینے والا نہیں۔ اس لیے اگر مصر، اردن، سعودی عرب، نائجیریا، لیبیا اور متحدہ عرب امارات پر بادشاہی کی جاسکتی ہے تو پھر پاکستان پر فوج بادشاہت کیوں قائم نہیں رکھ سکتی۔
12 users commented in " کشمیر کا سوداہونے والا ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبھئی اب وہ قاديانی وزيرخارجہ تو ہے نہيں جوکشمير پہ قرارداديں منظور کروالايا تھا- اب تو يہی ہے، گذارہ کيجيئے-
افضل سب سےپہلی چیز تو یہ کشمیر اب صرف پاکستان ہی نہی بلکہ بھارت کے لیے بھی ایک حلق میں پھنسی ہڈی ہے کیونکہ کشمیر اسکی خطے میں بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔۔ رہی بات کشمیری عوام کی تو پہلے تو یہ دیکھیں کے ہماری حکومتوں کے دل میں پہلے سے موجود پاکستانی عوام کا کتنا دکھ ہے جو وہ کشمیری عوام کا دکھ رکھیں؟ بھارت کارپوریٹس کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ کارپوریٹ دور میں جبکہ جنگیں تک کارپوریٹس کی بقا اور انکے فائدے کے لیے لڑی جاتی ہے میں نہیں سمجھتا کشمیر کا کوئی بھی ایسا حل نکلے گا جو بھارت کے لیے نا پسندیدہ ہو۔
اب بات کشمیری عوام کی۔۔ اگر آپ کے پاس چننے کے لیے دو چیزیں ہو تو انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھی چیز ہی چنتا ہے۔۔ ایک لمحے کے لیے قومیتوں سے بالا تر ہو کر ٹھنڈے دل سے سوچیں کے کشمیری پاکستان کا انتخاب کیوں کریں؟ فوجی حکومت کے مزے لینے کے لیے؟ بے بس عدلیہ کے لیے ؟ فرقہ واریت کے لیے ؟ مسخرے سیاست دانوں کے لیے ؟ ایسا کیا ہم آفر کر رہے ہیں جس کی بنا پر کشمیری پاکستان کا انتخاب کریں ؟
کم از کم اتنا تو یقین کرلینا چاہیئے کہ پاکستان کی رسوائی کا سامان ضرور ھوگا۔ اس کے بغیر مشی کو مزہ نہیں آتا۔ ویسے کشمیر اک علیحدہ سٹیٹ بن جائے تو بہتر ہے۔ ہمارے ساتھ آملے تو وہی حشر ہوگا جو ہمارا ہے-
اب مسلہ تو یہ ہے کے ان کو تو خرید و فروخت بھی نہیں اتی -!!!!!!!!!!!!!!!!!!
کشمیر ایک علیحدہ آزاد ریاست بن جائے تو اچھا ہے۔ ہماری فاشسٹ آرمی کا بجٹ لوٹنے کا ایک بہانہ تو کم ہوگا۔
بلکل کشمیر کے دونوں حصوں کو ملا کر آزاد کشمیر تشکیل دیا جائے،ہمارے کشمیری بھائی بہن بہت ظلم سہ چکے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ یہ صدی ان کی آزادی کی صدی ہو آمین،
کشمير کے مسئلے کا حل سو فيصد کشميری عوام کی اُمنگوں اور خواہشوں کو سامنے رکھتے ہُوۓ ہی ہونا چاہيۓ کہ سالہا سال سے تکليفيں بھی وہی سہہ رہے ہيں اور جہاں تک ہم سے آ ملنے کی بات ہے ميں آپ سے مُتفق ہُوں کہ ہمارے ساتھ مل کر بھی اُن کو کيا فائدہ حاصل ہونے والا ہے بس دُورکے ڈھول سُہانے والی مثال ہے يا آسمان سے گرا کھجُور ميں اٹکا والی بات ہو گی کہ ہم تو گوڈے گوڈےورديوں والوں کی ايزا رسانيوں ميں دھنسے ہُوۓ ہيں سو بالکُل الگ آزاد رياست کا قيام ہی اُن کے لۓ بہترين حل ہے باقی جو ارباب اختياران کی مرضی
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
کشمیریوں کا علیحدہ وطن بھی ان کی وردیوں سے اسی طرح جان نہیںچھڑا سکے گا جس طرح اب بنگلہ دیش وردی کی زد میں آچکا ہے۔ غیر تو پہلے ہی چاہتے ہیںمسلمانوں کو مزید ٹکڑوں میںبانت دیا جائے اور اگر ہم نے بھی انہی کی طرحسوچنا شروع کردیا تو پھر ہم لوگ متحد کیسے ہو پائیںگے۔ ہمارا ووٹ تو کشمیر کا پاکستان کے الحاق کے حق میںہے۔ یہی ایک چوائس ہے پاکستان کو مضبوط بنانے کی۔ تنقید یا مذاق کی حد تک کہنا تو ٹھیک ہے کہ کشمیر علیحد ہی ٹھیک ہے مگر ویسے کسی حال میں بھی یہ حل ٹھیک نہیں۔ ویسے ہمارا قیاس یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر کے مسئلے کا حل اسطرح نکالنے کی کوشش کررھے ہیں کہ وہ اپنے اپنے حصے پر قابض بھی رہیںاور کشمیریوں کو ایک دوسرے کے علاقے میںآنے جانے کی آزادی بھی مل جائے۔ اس مسئلے کایہ تلخحل ہوگا اگر دونوں ملکوں نے ملکر اس علاقے پر حکومت کرنے کا سمجھوتہ کرلیا۔ یہ ہو ہی نہیںسکتا کہ انڈیا کسی بھی حال میںکشمیر سے دستبردار ہوجائے۔
کیا کشمیر کے لیے بھارت ایک اچھی چوائس نہیں ؟ چاہے صورت حال کچھ بھی ہو۔۔ مگر تمام عالم میں بھارت کو سب سے بڑی جمہوریہ گردانا جاتا ہے۔۔ ایک مسلمان اور ایٹمی سائنسدان وہاں کا صدر اور ایک اور اقلیتی رہنما وہاں کا وزیر اعظم ہے۔۔ دنیا کا کوئی ملک اس وقت بھارت سے بگاڑ کی سوچ بھی نہیں سکتا اور خود بھارت میں ہی اگلی نسل بھی اپنے بھارتی ہونے پر فخر محسوس کرنے لگی ہے انکی کارپوریشنز آپ بھارت کی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں اپنے قدم جمانے لگی ہیں اور تو اور ایک بھارتی نے یورپیوں کی بنائی ہوئی اسٹیل مل خرید کر دنیا کے اسٹیل کنگ کا اعزاز حاصل کر لیا۔۔ دوسری طرف پاکستان جہاں سب بڑی تو چھوڑیں بنیدادی جمہوریت کا دور دور تک پتہ نہیں۔۔ ایٹمی سائنسدان کی وہ ہمت افزائی کری کے کوئی نوجوان انکے نقش قدم پر چلنے سے پہلے سو دفعہ سوچے اور ایک اعلی دماغ ڈاکٹر سلام کی شکل میں پیدا ہوا اسے بھی ہم نے اسکے مذہبی اعتقادات کی بنا پر ڈس اون کر دیا۔۔ مجھے اس سے غرض نہیں لوگ مجھے کیا کہیں ۔۔ کشمیریوں کو میرا ایک مشورہ ہے۔۔ کشمیریوں پاکستان سے الحاق کی غلطی کبھی نہ کرنا۔۔ تم اس سے بھی محروم ہوجاو گے جو ابھی تمہارا ہے۔۔ درگاہ حضرت بل پر مذہبی انتہا پسند قابضہوجائی گے۔۔ اور ڈل جھیل پر فوجی۔۔
ميرا پاکستان ،کشمير کا درد ہم سب کا مُشترکہ درد ہے اور آج سے نہيں پچھلے ساٹھ سالوں سے ہم يہ درد جھيل رہے ہيں دونوں طرف کی حکُومتوں کے روّيوں کو ديکھتے ہُوۓ آج بھی ہم اس اُلجھن ميں ہيں کہ کون کہاں کس کے ساتھ رہنا چاہے گا دل تو يہی کہتا ہے جو ہم اپنے بچپن سے کہتے اور سُنتے آۓ ہيں ميری والدہ بھي کشميری تھيں اور ہم اپنی امّی کو کہا کرتے تھے امّی يہ اٹوٹ انگ کيا ہو تا ہے جو ہم ہميشہ سُنتے تھے ايک نعرے کےطور پر کہ کشمير بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اُس وقت تو معنی و مفہُوم کی نا واقفيت کی بناء پر يہ سب کہتے تھے ليکن وقت بيتنے کے ساتھ يہ حقيقت ہم پر آشکار ہُوئ کہ دونوں طرف کے لوگ ايک سا ہی سوچتے ہيں پھر بھی اتنے طُول طويل فاصلوں کی کيا ضرورت رہ جاتی ہے پھر دونوں طرف کے حالات، ايک سی سياستيں ،کاش کہ کوئ صرف ان دُکھی دلوں کا درد سمجھے اور اپنی سياست کی دُکان داری نا چمکائيں اب جب کہ دُنيا ميں نا ہی فاصلے کوئ خاص اہميّت رکھتے ہيں اور نا ہی وقت پھر بھی اتنے تھوڑے سے فاصلوں سے بھی اگر يہ لوگ آپس ميں مل نہيںپاتے تو ايسا لگتا ہے ہم آج بھی پتھر کے زمانے ميں جی رہے ہيں دُعا ئيں ہيں صرف اورصرف حکُومتوں اور ارباب اختيار کے جائز اور نيک ارادوں کے لۓ
دُعاگو
شاہدہ اکرم
لیجیئے راشد صاحب نے اپنا اصل دکھاہی دیا افضل صاحب:) ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی،
راشد صاحب چوائس تو آپ کے پاس بھی ہے آپ بھی امیریکا کے ساتھ ساتھ انڈین نیشنلٹی لینے کی کوشش کریں:)
آپ کا بس چلے تو پورے پاکستان کو انڈیا کے حوالے کردیں،
آپ جیسے لوگوں کی انہیں بڑی ضرورت رہتی ہے،
بغل میں چھری منہ پر رام رام،
عبداللہ آپ ٹاپک پر تبصرہ کریں یا میرے تبصرے پر تبصرہ کریں۔۔ میرے اوپر تبصرہ کیوں کر رہے ہیں؟ اگر آپ کو میری کسی بات سے ناراضگی ہے تو میں دل کی گہرائیوں سے معذرت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کے آپ میرے دیے گئے دلائل کا دلائل سے جواب دیں گے اور یہ ثابت کریں کے کشمیریوں کے لیے پاکستان ایک اچھی چوائس ہے تاکہ ہم بحث آگے لے کرچلیں۔۔
Leave A Reply