مندرجہ ذیل مضمون وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر چھپا ہے

روسی فیڈریشن کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی آ رہی ہے۔ اس کی مجموعی آبادی میں ہر سال کم از کم سات لاکھ کی کمی واقع ہو رہی ہے جب کہ اس کی مسلمان آبادی میں ہر سال چار فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اس تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔Russia Islma

اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق2050ء تک روس کی آبادی میں ایک تہائی کی کمی آ سکتی ہے۔ بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ روسی آبادی میں شرح پیدائش کی کمی اور مسلمانوں کی آبادی میں تیز رفتار اضافے کے نتیجے میں اِس صدی کے وسط تک روسی فیڈریشن مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اسٹونیا کی یونیورسٹی آف تارتو کے ایک محقق پال گوبل کہتے ہیں کہ گذشتہ عشرے میں روس کی آبادی میں اہم تبدیلی آئی ہے:

’ماسکو میں آج کل پیرس سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ماسکو میں ان کی تعداد 25 اور 30 لاکھ کے درمیان ہے۔ ماسکو میں آبادی کا دوسرا سب سے بڑا گروپ آزربائیجانیوں کا ہے جن کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں دس سے ساڑھے بارہ لاکھ تک مسلمان رہتے ہیں۔اور تو اور، وہ اب کریلیا، کم چٹکا اور سخالن جیسے مقامات میں بھی موجود ہیں جہاں پہلے ان کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔‘

 اِس رجحان کی ایک وجہ یہ ہے کہ 18 سے 55 برس کے روسی نسل کے لوگوں میں شرحِ اموات بہت زیادہ ہے۔ پال گوبل کہتے ہیں روس میں کثرت شراب نوشی، بیماری اور صنعتی حادثات کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ روسی فیڈریشن میں روسی نسل کے لوگوں کی تعداد میں ہر سال دس لاکھ کی کمی آجاتی ہے ۔

روس میں مسلمان دو جغرافیائی علاقوں میں رہتے ہیں:دریائے وولگا کے طاس کا علاقہ جو روسی فیڈریشن کے وسط میں واقع ہے ، اور شمالی قفقاز کا علاقہ۔

 وولگا کے علاقے میں رہنے والے مسلمان صدیوں سے روسی شہری ہیں اور عموماً اعتدال پسند مسلمان ہیں۔ لیکن شمالی قفقاز میں حالات مختلف ہیں۔ خاص طور سے چیچنیا میں ہمیشہ روس کی مزاحمت کی گئی ہے۔

 واشنگٹن میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ڈیوڈ سیٹر کہتے ہیں کہ روسی نسل کے لوگ، سابق سوویت جمہوریتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی کثیر تعداد میں آمد کو بھی پسند نہیں کرتے۔ بہت سے روسی شہروں میں، خاص طور سے سینٹ پیٹرزبرگ، وورنیزاور ماسکو میں مسلمانوں پر حملوں کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

بعض دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، غیر مسلم آبادی پر دباوٴ بڑھتا جا رہا ہے۔ میخائل دیلیاگن کارنیگی ماسکو سینٹر میں فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روس کے کئی علاقوں سے غیر مسلم آبادی کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔اگر حکومت چاہے تو اِس رجحان کو دبا سکتی ہے۔

 لیکن جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے  پیٹر ریڈاوے کہتے ہیں کہ روسی حکومت نے آرتھوڈاکس عیسائیت  کے دفاع کے لیے جو قانون بنائے ہیں ان کے ذریعے اس نے مسلمانوں کی سرگرمیوں کو دبانا شروع کر دیا ہے۔

 روسی مسلمانوں کی روس سے بیگانگی کا رویہ اب تک شمالی قفقاز کے علاقے تک محدود رہا ہے اور اس کی وجہ چیچنیا کے ساتھ گذشتہ 13 سال کی جنگ ہے۔لیکن اب یہ رویہ روس کے دوسرے مسلمان آبادی والے علاقوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روس کی آبادی میں تبدیلی سے مغرب کے لیے دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

 محقق پال گوبل  کو تشویش ہے کہ مسلمان اکثریت میں تبدیل ہونے کے بعد روس میں سیاسی طور پر اپنے قدم جما سکتے ہیں:

’میرے خیال میں یہ بات اہم ہے کہ روسی فیڈریشن کی مسلمان آبادی ہمارے اقدامات کو کِس نظر سے دیکھتی ہے اور اس سے پہلے کہ مسلمان اکثریتی حیثیت حاصل کریں، روسی نسل کے لوگوں کے اقدامات کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ کیا ہے۔لوگوں کو یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اگر ایٹمی ہتھیار مسلمان انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو کیا ہوگا۔اگرروس میں مسلمانوں 

Russian Federation

نے اکثریت حاصل کر لی، تو ان کے ہاتھوں میں بہت سے بم آ جائیں گے۔ اگر لوگ اِس امکان سے خوفزہ نہیں ہیں، تو انہیں خوفزدہ ہونا چاہیئے۔ ہم آج کل اور اگلے چند عشروں میں اِس کمیونٹی کے ساتھ جو سلوک کریں گے، اسی سے مستقبل میں ہمارے ساتھ اِس کمیونٹی کے رویے کا تعین ہوگا۔‘

گوبل اور بہت سے دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں کو روس پر زور دینا چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کو روسی معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کرے اور اِس امر کو یقینی بنائے کہ ان کے مذہبی اور انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو اس کا نتیجہ روسی فیڈریشن میں عدم استحکام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔