طاہرالقادری کے چودہ جنوری والے لانگ مارچ کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایم کیو ایم نے قلابازی لگاتے ہوئے لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ بدل لیا ہے اور وہ لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرے گی۔ ابھی ایک دن پہلے الطاف حسین نے کراچی کے جلسے میں اعلان کیا کہ ایم کیو ایم لانگ مارچ شرکت کرے گی۔ لگتا ہے ایم کیو ایم کی پی پی پی کو دھمکا کر اپنا کام نکلوانے کی کوششیں پھر کامیاب ہو گئی ہیں۔
وزیرداخلہ نے اسلام آباد کے تاجروں کو لانگ مارچ کیلیے لگائے گئے بیت الخلا اور ٹینٹوں کو اکھاڑ پھینکنے پر اکسایا ہے اور تاجروں نے عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ ایک دن پہلے انہوں نے طاہرالقادری سے ملاقات کی اور لانگ مارچ کیلیے سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ آج انہوں نے کہا ہے کہ طاہرالقادری لانگ مارچ ختم کر دیں اور اگر لانگ مارچ میں کوئی واقعہ پیش آیا تو اس کا مقدمہ منہاج القرآن کیخلاف درج ہو گا۔
کل سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں پٹرول کی قلت دیکھی جا رہی ہے۔ مشیر پٹرولیم کا بیان آیا ہے کہ نہ انہوں نے پٹرول پمپ بند کرنے کا آرڈر دیا ہے اور نہ دیں گے مگر لگ رہا ہے حکومت دو دن کیلیے پٹرول پمپ بند کر دے گی تا کہ گاڑیاں لانگ مارچ میں کم سے کم شرکت کر سکیں۔ پتہ نہیں یہ کس شیطانی ذہن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کیونکہ پیڑول کی بندش سے حکومت کا ہی نقصان ہو گا۔ انتخابات قریب ہیں اور لوگوں کو اس عمل سے مخالف بنانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ دوسرے ہو سکتا ہے پیڑول کی بندش کیخلاف مقامی لوگ زیادہ سے زیادہ لانگ مارچ میں شرکت کریں۔
اب تو ایم کیو ایم نے بھی کہہ دیا ہے کہ لانگ مارچ میں دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ ابھی کل ہی کوئٹہ میں پاکستانی تاریخ کی بہت بڑی دہشت گردی میں کئی درجن لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر اس طرح کا واقعہ لانگ مارچ میں پیش آ گیا تو ملک کیلیے بہت نقصان دہ ہو گا۔ مگر اس کی فکر حکومت کو نہیں ہے۔ انہیں یہ فکر ہے کہ حکومت میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کیسے رہا جائے۔
لانگ مارچ کو اسلام آباد کے ریڈ زون اور بلیو ایریا سے باہر رکھنے کیلیے سیل کر دیا گیا ہے۔ اب معلوم نہیں لانگ مارچ کے شرکا پارلیمنٹ تک پہنچنے کیلیے کتنی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مزہ تبھی آئے اگر ان تمام مشکلات کے باوجود لانگ مارچ میں شرکت کرنے والے عوام وہیں پر کرپٹ لوگوں کا احتساب کریں اور انہیں ایسی سزا دیں کہ آنے والی حکومت کرپشن کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے۔