اردو بلاگرز فیس بک کے اکسانے پر یہ تحریر لکھی گئی ہے۔
پاکستان میں جب بھی نئی حکومت آتی ہے لوگ اس سے بہت سی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ مگر تبدیلی پھر بھی نہیں آتی کیونکہ ابھی ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جو پرو پاکستانی ہو۔ ہمارے خوابوں کا پاکستان وہی حکومت بنا سکے گی جو نیک صالح اور محب وطن لوگوں پر مشتمل ہو گی۔
معاشرہ اب جس حد تک بگڑ چکا ہے اسے عوام درست کرتے نظر نہیں آتے۔ یہ تبھی درست ہو گا جب حکومت چاہے گی۔ کیونکہ ہماری فوج خفیہ طور پر حکومتی امور میں دخل اندازی کرتی رہی ہے اس لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہماری فوج محب وطن اور سچی مسلمان ہو اور اس طرح کی فوج کی تیاری کیلیے موجودہ برطانوی طرز کا نظام تربیت بدلنا ہوگا۔ جس دن ہماری فوج کا سربراہ باریش نیک مسلمان بنے گا سمجھ لیجیے اس دن ہمارے خوابوں کے پاکستان کی بنیاد رکھ چکی ہو گی۔ہماری فوج بہت زیادہ کاروباری بن چکی ہے۔ طرح طرح کے اس نے بزنس شروع کر رکھے ہیں۔ ہمارے خوابوں کے پاکستان میں اس طرح کی فوج ہو جو صرف اور صرف ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہو۔
کوئی بھی حکومت اگر چاہے تو مندرجہ ذیل اقدامات کر کے پاکستان کو ہمارے خوابوں کا پاکستان بنا سکتی ہے۔
الف – پڑوسی ممالک کیساتھ پچیس سال تک جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے جائیں اور دفاعی بجٹ کو ایک چوتھائی کم کرکے باقی رقم تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے۔
ب – تھانہ، پٹواری اور عدالتی نظام اس طرح کا ہو کہ اگر کوئی رشوت دینا بھی چاہے تو نہ دے سکے۔ ملک میں رشوت لینے والوں کی بجائے رشوت نہ لینے والوں کی عزت ہو۔ رشوت لینے والوں کی پکڑ دھکڑ کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہو اور اینٹی کرپشن میں پانچ سو نیک اور صالح لوگ ہوں جو ملک سے رشوت لینے والوں کا صفایا کر دیں۔ کرپشن کاچھوٹے سے چھوٹا الزام ثابت ہونے پر کڑی سے کڑی سزا دی جا رہی ہو۔
پ – حکومت انتہائی سادہ ہو اور اس کے نمائندوں کو اپنی حفاظت کیلیے لمبے چوڑے حفاظتی حسار کی ضرورت نہ ہو۔
ت – ایسا قانون ہو جس کی وجہ سے صرف اور صرف عام شہری انتخاب لڑ سکیں۔ امیر کبیر، لینڈ لارڈاور صنعتکاروں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہو۔
ٹ – آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں سے نجات کیلیے سادہ زندگی گزارنے کی شروعات حکومت کرے اور پھر عوام اس کا ساتھ دے رہی ہو۔
ث – قومی صنعت کو ترقی دینے کیلیے درآمدات پر بھاری قسم کی ڈیوٹیاں عائد ہوں۔
اس طرح کے خوابوں کا پاکستان کیلیے ہمیں ایک جنونی درکار ہے جسے نہ اپنی جان کی پرواہ ہو اور نہ اپنے مال کی۔ اگر حضرت عمر ثانی یعنی عمر بن عبدالعزیز سینکڑوں سال پہلے ایک سال میں حکومتی معاملات ٹھیک کر سکتے ہیں تو پھر آج کا نیک اور صالح حکمران کیوں نہیں کر سکتا۔