چیف جسٹس سپریم کورٹ آٹھ سال کی سروس کے بعد آج ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بیشک چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈکٹیٹر مشرف کی حکومت کے تحت حلف لیا مگر جب انہیں معزول کیا جانے لگا تو ان کے ڈٹ کر مقابلہ کرنے نے انہیں سب کا چیف بنا دیا۔ ایک انکار نے انہیں قوم کا ہیرو بنا دیا اور جنرل مشرف کو زیرو۔ یہ چیف جسٹس کا انکار ہی تھا جس نے جنرل مشرف کے اقتدار کے کفن میں آخری کیل ٹھونکا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے سویلین حواری بھی اسے نہ بچا سکے۔
چیف جسٹس کی بحالی میں صرف اور صرف کالے کوٹ والے وکلاء، میڈیا اور سول سوسائٹی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ حزب اختلاف کے نکما ہونے کی بہت ساری دلیلوں میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ چیف کے بحران کو کیش نہ کرا سکی۔
چیف نے اس کے بعد سپریم کورٹ کی تاریخ ہی بدل دی۔ چیف پاکستان کی عدالتی تاریخ میں حکومت کے تیسرے طاقتور ستون کے طور پر ابھرے۔ ہو سکتا ہے نئے چیف جسٹس اور ان کے پیش رو چیف کی روایات کو برقرار رکھیں مگر ہمیں اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
چیف نے جہاں بہت سارے کیسز کا فیصلہ سنایا وہاں انہوں نے کچھ کیسز کو لٹکائے بھی رکھا۔ مگر یہ چیف ہی تھے جنہوں نے وزیراعظم سے لیکر ایک سپاہی تک کی دوڑیں لگا دیں۔ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں گھر بھیجا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کا کیس کرنے کا حکم دیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے کوششیں کیں۔ 3 نومبر کی ایمرجینسی اور این آر او کے فیصلے ان کے کریڈٹ پر رہیں گے۔
اللہ کرے چیف کے جاں نثار اسی طرح ان کے پیش روؤں کی بھی حمایت کرتے رہیں۔ طاقت کا یہی ایک ستون ہے جو اب تھوڑا کرپشن سے پاک ہے۔
اب پتہ نہیں چیف جیسی کونسی نئی شخصیت کے حق میں چیف جیسی شہرت نصیب ہوتی ہے اور کالے کوٹ والے پھر نعرے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
چیف تیرے جاں نثار
بے شمار بے شمار