منجھے ہوئے سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے جب سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے وہ باغی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ دو دن قبل جب ان کی راہیں اپنے لیڈر عمران خان سے جدا ہوئیں تو وہ اسی طرح پھٹ پڑے جس طرح وہ میاں برادران سے جدا ہو کر بولے تھے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ان کی اپنی شخصیت بھی مجروح ہوتی ہے۔
ہماری نظر میں اچھا آدمی وہی ہوتا ہے جو دشمنی بھی طرح داری سے نبھاتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ جس کا دوست اور رازداں ہو جب اس سے ناراض ہو تو اس کی عزت بازار میں اچھال دے۔ ایسے لوگ بہت ہی خطرناک اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں ان پر بھروسہ کرنا آدمی کی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔
اگر جاوید ہاشمی میں تھوڑی سی بھی عقل اور بردباری ہوتی اور وہ خاندانی ہوتے تو وہ پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کی بجائے خاموشی سے الگ ہو جاتے اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہتے۔ مگر نہیں ہم وہ لوگ ہیں جو موقع ملتے ہی ایسا کاٹتے ہیں کہ ان کا زہر رگ و پے میں اتر جاتا ہے۔
اس وقت تو بہت دکھ بہت ہوتا ہے جب آپ کا ہمراز آپ کے راز ایسے بیان کرتا ہے جیسے سنی سنائی باتیں ہوں اور جب ثوبت کا پوچھو تو چپ ہو جاتا ہے۔
ہمارا یہ تجربہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے بھروسے والے آدمی کی وجہ سے شکست کھاتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کبھی ہندوستان پر قبضہ نہیں کر سکتی تھی اگر مقامی بااثر لوگ غداری نہ دکھاتے۔ عراق پر کبھی عالمی طاقتیں قبضہ نہ کر پاتیں اگر مقامی عراقی ان کو سپورٹ نہ کرتے۔ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہ لگتے اگر سیاستدان جنرلوں کی جھولیوں میں نہ بیٹھتے۔
مگر دوسری طرف پتہ نہیں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اور حکمران اپنے قومی راز کیسے مرتے وقت اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کم از کم اپنی قوم کی خاطر وہ یہ وسیت تو کر سکتے تھے کہ مرنے کے بعد ان رازوں کو افشاء کر دیں جن کا ان کی قوم کو فائدہ ہوتا۔
عجیت دنیا ہے یہ کہیں لوگ مرنے تک راز افشاء نہیں کرتے اور کہیں ذرا سی ناراضگی پر طوائف کی طرح سب کچھ کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو ان لوگوں اور طوائف میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ طوائف اپنا جسم گاہکوں کو پیش کرتی ہے اور رازداں اپنی اپنی غیرت قوم کے سامنے ننگی کر دیتے ہی۔