پاکستان عوامی تحریک اور حکومت دونوں فریق ایک دوسرے کیخلاف دھڑا دھڑ قتل کے مقدمات درج کرا رہےہیں مگر ابھی تک نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور نہ ہی کسی نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست جمع کروائی ہے۔ غریب کیخلاف دفعہ 302 لگ جائے تو اس کی ساری عمر ضمانت ہی نہیں ہوتی۔ یہ کیسے مقدمات ہیں جن کا ملزموں کے شب و روز پر کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا؟
میرے دوست کے دو بیٹوں نے تین ماہ قبل اپنے مشترکہ دوست کو اس کے غلط چال چلن کے شبے میں قتل کر دیا۔ دوسرے دن وہ گرفتار ہو گئے۔ ان پر قتل کا مقدمہ درج ہوا اور وہ تب سے جیل میں ہیں۔ ابھی تک ہوائی تاریخیں پڑ رہی ہیں اور ضمانت کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
ادھر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پر دفعہ 302 لگی مگر وہ ابھی تک حکمران ہیں۔ نہ انہیں تھانے پیش کیا گیااور نہ ہی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ کہتے ہیں دفعہ 302 لکھ کردرخت کیساتھ بھی باندھ دی جائے تو چند روز میں درخت سوکھ جاتا ہے مگر میاں برادران کو ذرہ برابر فرق نہیں پڑا۔
امیر اور غریب میں قانون کا یہ فرق پاکستان کی تنزلی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک ہے۔ ابھی دو دن قبل مسلم لیگ ن کے ایم این اے رمیش اور پی پی پی کے سینیٹر رحمان ملک کی وجہ سے جہاز اڑھائی گھنٹے لیٹ ہوا اور اس کے جواب میں مسافروں نے انہیں جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا۔ ابھی تک نہ تو پی آئی اے نے ان مسافروں کیخلاف مقدمہ درج کرایا ہے جنہوں نے ان دو شخصیات کو طیارے میں سوار ہونے سے روکا اور نہ ہی حکومت نے ان دو شخصیات کیخلاف عوام کا وقت ضائع کرنے اور پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت دونوں شخصیات سے ہرجانہ وصول کر کے مسافروں اور پی آئی اے کے نقصان کا اذالہ کرتی البتہ حکومت نے الٹا پی آئی اے کے دو ملازمین کو معطل کر دیا ہے کیونکہ وہ عام آدمی تھے۔