اگر کوئی یہ کہے کہ آپ محض دوسروں کی مدد کرنے سے صدر بن سکتے ہیں‘ تو شاید آپ یقین نہ کریں۔ مگر یہ کرشمہ انڈونیشیا میں ظہور پذیر ہوچکا۔

20 اکتوبر کو اس اسلامی مملکت میں ایک ایسے عوامی رہنما نے حلف صدارت اٹھایا جو صرف دکھی انسانیت کو سہارا دینے سیاست میں آئے۔ وہ سیاسی رہنما بن کر دولت چاہتے تھے اور نہ عزت و شہرت جس کے پیچھے بیشتر لیڈر پاگلوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ جو کو ویدودو(Joko Widodo) کی بے مثال داستان حیات یہ سبق دیتی ہے کہ ایک سیاست داں کو کس انداز میں ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔

53 سالہ جو کو ویدودو 21 جون 1961ء کوانڈونیشی شہر‘ سوراکارتا (Surakarta)میں پیدا ہوئے۔ والد‘ نوتو مہردیجو معمولی ترکھان تھے۔ انہیں فرنیچر بنا کر بہ مشکل اتنی آمدنی ہوتی کہ روز مرہ اخراجات پورے ہو سکیں۔ خاندان کرائے کے گھر میں مقیم تھا۔جو کو کی پیدائش کے چند سال بعد نوتو مقروض ہو گیا۔ حتیٰ کہ کرایہ ادا کرنے کو رقم نہ رہی۔ جوکو کی والدہ‘ سدجیامتی نے شوہر کو وہ قیمتی برتن دیئے جو انہیں اپنے باپ سے پہلے بیٹے کی پیدائش پر تحفتہً ملے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ شوہر انہیں بیچ کر کچھ رقم حاصل کر لیں۔ یہ ایک خاتون خانہ کی طرف سے بڑی قربانی تھی۔

نوتو مہر دیجو برتن لیے سائیکل میں انہیں بیچنے نکلے۔ افسوس کہ راستے میں برتن گرے اور چکنا چور ہو گئے۔ اس نقصان پر قدرتاً اہل خانہ کو بڑا افسوس ہوا۔ نوتو کے والد کی ایک گھڑی بیٹے کے پاس محفوظ تھی۔ وہ باپ بیٹے کی محبت کی انمول نشانی تھی۔ اب نوتو نے دل پر پتھر رکھ کر وہ جان سے زیادہ پیاری گھڑی گروی رکھ دی۔لیکن گھڑی کے بدلے جو رقم ملی‘ وہ ناکافی تھی۔ چنانچہ کرایہ ادا نہ ہونے پر انہیں گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ پھر وسط شہر میں بہتے دریائے سولو کے کنارے بنی کچی آبادی میں رہنے لگے۔ انہوں نے درخت کاٹ کر وہاں ایک جھونپڑی بنائی اور یوں سرچھپانے کا ٹھکانا میّسر آ گیا۔

اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی نوتو کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ترقی کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ ان کے ایک رشتے د ار فرنیچر بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ چلاتے تھے۔ نوتو کو وہاں ملازمت مل گئی۔وہ محنتی انسان تھے۔ انہوں نے دان رات محنت کر کے اتنی رقم جمع کر لی کہ اپنی دکان کھول سکیں۔ وہیں بارہ سالہ جو کو بھی باپ سے ترکھان کا کام سیکھنے لگا۔ وہ صبح سکول جاتا‘ سہ پہر کو باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اللہ تعالیٰ نے کام میں برکت دی اور وہ چل پڑا۔ جلد ہی جمع پونجی کے ذریعے نوتو نے ذاتی گھر تعمیر کر لیا۔

1980ء میں جو کو نے میٹرک پاس کیا۔ اب کالج میں پڑھائی کا مرحلہ آیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے زیادہ سرمایہ بھی درکار تھا۔ ادھر دکان سے اتنی ہی آمدن ہوتی کہ گھر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ تب تک جو کو کی دو بہنیں بھی پیدا ہو چکی تھیں۔ سو خرچ بڑھ گیا۔اس کڑے وقت میں خاندان والے پھر باپ بیٹے کی مدد کو پہنچے۔ مشترکہ خاندانی نظام کا یہ بہت بڑا وصف ہے کہ اس میں سب لوگ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ نوتو کے بھائیوں نے بھتیجے کی فیس کا بندوبست کیا ۔ یوں جوکو جکارتہ چلے آئے اور وہاں گاجا مادا یونیورسٹی کے شعبہ جنگلات میں تعلیم پانے لگے۔
1985ء میں جو کو نے بی ایس سی فارسٹری کر لیا۔ تب تک وہ اپنے ایک دوست کی بہن ارینا سے محبت کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اگلے سال شادی کر لی۔ان کے ہاں تین بچے تولد ہوئے‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ جو کو نے بعدازاں کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی‘ مگر وہ اہل خانہ سے دور نہ رہ سکے۔ چنانچہ پُر کشش تنخواہ کو لات مار کر واپس سورا کارتا چلے آئے۔ وہاں پہلے اپنے رشتے دار کی فرنیچر فیکٹری میں کام کیا۔ پھر 1988ء میں فرنیچر بنانے و بیچنے کا اپنا کاروبار کرنے لگے۔ افسوس کہ ان کی سادگی و معصومیت سے ایک شیطان صفت انسان نے فائدہ اٹھایا اور جوکو کی ساری رقم لے اڑا۔ تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور بیوی کا زیور بیچ کر نئے سرے سے کاروبار شروع کیا۔ محنت اور دیانت داری کے باعث اللہ تعالیٰ نے پھل بھی میٹھا دیا اور کاروبار مستحکم ہوگیا۔

بچپن سے اب تک جو کو نے غربت کے مختلف تکلیف دہ مظاہر دیکھے تھے۔ کبھی انہیں ماں باپ کے ساتھ دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ کبھی دن بھر پیٹ بھرنے کو ایک ہی کھانا ملتا۔ کبھی ایک ہی لباس زیب تن کیے کئی ہفتے گزر جاتے۔ جب ان کی مالی حیثیت مستحکم ہوئی تو جو کو سوچنے لگے‘ کس طرح غریب ہم وطنوں کی حالت بدلی جائے؟ تب انہیں احساس ہوا کہ وہ حکومت میں پہنچ کر ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو غربا کو کم از کم تین فوائد پہنچائے:

1…سرچھپانے کو جگہ دے

2 …پیٹ بھر کھانا کھلائے اور

3… تن ڈھانپنے کو کپڑا دے

وہ اپنی سوچوں میں گم تھے کہ دوستوں نے بھی انھیں سیاست میں جانے کا مشورہ دیا۔ان کی خواہش تھی کہ ایماندار،اہل اور مخلص نوجوان انڈونیشی سیاست میں حصہ لیں۔جوکو نے ان کی آواز پہ لبیک کہا اور 2004ء سے سوراکارتا کی بلدیاتی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ ان کی سیاست روایتی سیاست دانوں سے بالکل مختلف تھی جو صرف بہ موقع الیکشن ووٹ مانگنے غریبوں کی بستیوں میں چلے آتے۔ مصنوعی طور پہ بوڑھوں سے ملتے اور بچوں کو گود میں اٹھاتے، لیکن گھر پہنچ کر غیر ملکی صابنوں سے مل مل کے نہاتے تاکہ خود کو پاک کر سکیں ۔وہ پر آسائش زندگی گذارتے اور ان مصائب سے بے پرواہ تھے جن سے غریب روزانہ نبرد آما ہوتے۔

اُدھر جو کو شہر کے چپّے چپّے پر گئے اور ہر قسم کے لوگوں سے ملے۔ یوں انہیں مزید واقفیت ملی کہ عام آدمی کس قسم کی مشکلات میں مبتلا ہے ۔جوکو نے شہریوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ میئر شہر بن گئے، تو ان کے مصائب دور یا کم کرنے کی ہر ممکن سعی کریں گے۔ اس نوجوان رہنما کا خلوص و سچائی باتوں اور آنکھوں سے ظاہر تھی‘ اس لیے جوکو دیکھتے ہی دیکھتے سورا کارتا میں جانے پہچانے عوامی رہنما بن گئے۔آخر 2005ء میں وہ شہر کے میئر منتخب ہو ئے۔ انہوں نے حکمران جماعت کے نمائندے کو شکست دے کر سبھی کو حیران کر دیا۔ مگر ابھی جوکو کے کارناموں نے پورے ملک کو چونکا دینا تھا۔ وہ سات برس شہر کے میئر رہے اور اس دوران سوراکارتا کی کایا پلٹ ڈالی۔

2005ء میں سورا کارتا مجرم پیشہ گروہوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ قانون کانام و نشان نہیں تھا کیونکہ انتظامیہ کرپشن کی دلدل میں پھنسی تھی۔ جوکو نے برسراقتدار آتے ہی بلدیہ کے کرپٹ ملازمین کو گھر بھجوایا اور ایمان دار ملازم بھرتی کیے۔پھر شہر میں اعلان کرا دیا کہ بلدیہ کا جو ملازم رشوت مانگے‘ اس کی خبر انہیں دی جائے۔ چنانچہ چند ماہ میں بلدیہ کے ملازم… افسروں سے لے کر خاکروبوں اور مالیوں تک اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینے لگے۔

اب جو کو دیگر عوامی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے شہر میں نئی بسیں چلائیں اور ٹرانسپورٹ نظام بہتر بنایا۔ غریبوں کے لیے کم قیمت مکانات بنوائے۔ مخصوص مقامات میں مارکیٹیں بنائیںجہاں غریب چھابڑی والوں کو مفت دکانیں دی گئیں۔ جن پارکوں میں مجرموں کا بسیرا تھا‘ وہاں نئے درخت و پودے لگوائے اور انہیں بہتر ین تفریحی مقام بنا دیا۔ شہر میں جتنے بھی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے‘ ان کا ٹھیکہ جوکو کے کسی رشتے دار حتیٰ کہ دوست کو بھی نہیں ملا۔جوکو نے یوں شہر میں وی آئی پی کلچر‘ کرپشن اور اقربا پروری کے بخیے ادھیڑ ڈالے اور میرٹ و قانون کی حکمرانی کو پروان چڑھایا۔ وہ روزانہ کسی محلے یا کچی آبادی جاتے اور لوگوں سے گفت و شنید کرتے‘ ان کے مسائل سنتے۔ یوں انہوں نے براہ راست عوام سے تعلق رکھنے کا سلسلہ شروع کیا جوآج بھی جاری ہے۔

جب جوکو عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے‘ تو پھر انہوں نے مجرم پیشہ گروہوں کے خاتمے کا سوچا۔ اب شہری پولیس اوور ہالنگ سے گزری اور سبھی کرپٹ افسر و سپاہی برخاست کر دیئے گئے۔ نئے پولیس افسروں نے پوری طاقت سے مجرموں کو کچلا اور جو کو کی حمایت سے کسی سفارش کو خاطر میں نہیں لائے۔ چنانچہ چند ہی ماہ میں سوراکارتا میں امن و امان قائم ہو گیا اور قانون کی حکمرانی طاقتور ہوئی۔ ماحول دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جو کو نے درخت کاٹنے پر پابندی لگا دی۔ سرکاری دفاتر میں متبادل ذرائع توانائی سے حاصل کردہ بجلی کو رواج دیا۔ شہر یوں کے لیے ہیلتھ انشورنس شروع کی۔ غرض انہوں نے وہ تمام اقدامات کیے جو ایک عادل اور عوام دوست حاکم کو کرنے چاہیں۔

بلدیہ میں کرپشن ختم ہوئی‘ تو لوگوں کو نیا کاروبار کرنے کے فوراً لائسنس ملنے لگے۔ یوں شہر میں تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملا اور شہری خوشحال ہوگئے۔جوکو نے شہریوں کی ذہنی نشوونما کے لیے بھی کئی کام کیے۔ مثلاً فن و ثقافت اور علم و ادب کے میلے منعقد کرائے۔ شہر میں آرٹ کی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ انہی سرگرمیوں کے ذریعے انسان مادہ پرستی سے دور ہوتا ہے اور اس میں خیر و بھلائی کی اعلیٰ انسانی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔
سوراکارتا میں بچے بچے کو معلوم ہے کہ اس سات سالہ دور میں جوکو کی ماہانہ تنخواہ کیا رہی … کیونکہ وہ ہر سال اپنے اثاثوں کی تفصیل عوام کے سامنے لاتے۔ انہوں نے سارے عرصے صرف اپنی تنخواہ پر گزارہ کیا اور سادگی سے رہے۔جوکو کی طاقت کا ایک راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے واسطے کوئی بے جا تمنا نہیں کی اور ضمیر کو پاک صاف رکھا۔ وہ معمولی حلال کی کمائی کو حرام کی اربوں روپے والی آمدن پر ترجیح دیتے ہیں۔ دامن میں کوئی گندا چھینٹا نہ ہونے کے احساس ہی نے جوکو کو ایسی غیر معمولی قوت دی کہ وہ روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے اور تھکن قریب نہ آتی۔

عوام میں بے پناہ مقبولیت اور حقیقی طرز حکمرانی اپنانے کے باعث 2012ء تک جو کو پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔ چنانچہ صوبہ جکارتہ کی گورنرکا الیکشن ہوا‘ تو جو کو باآسانی اسے جیتنے میں کامیاب رہے۔گورنری بن کر وہ زیادہ بااختیار ہوئے تو انہوں نے صوبے بھر میں مزید عوامی منصوبے شروع کیے۔ ان کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ غریبوں کو غربت کے پنجوں سے رہائی ملے اور انہیں سہولیات دی جائیں۔ مثلاً غریب طلباء وطالبات کے لیے ’’سمارٹ کارڈ‘‘ جاری ہوا۔ اس کارڈ سے بذریعہ اے ٹی ایم سے رقم نکلوائی جاتی ہے تاکہ فیس یا دیگر تعلیمی اخراجات پورے ہو سکیں۔ صوبے بھر میں غریبوں کو سستی طبی سہولیات دینے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ انہی غریب دوست منصوبوں کی وجہ سے صوبہ جکارتہ کا بجٹ دو برس میں 41 کھرب روپیہ سے 72کھرب روپیہ تک پہنچ گیا۔

اہم بات یہ کہ گورنر جوکو نے بڑھتے اخراجات پورے کرنے کی خاطر بینکوں سے قرضے نہیں لیے نہ غیر ملکی امداد بلکہ ٹیکس نظام کو بہتر بنایا۔ کرپشن سے پاک اقدامات اور قانون پر عمل درآمد سے صوبے کا امیر طبقہ خودبخودٹیکس دینے لگا۔ یوں صوبائی حکومت کی آمدن بڑھ گئی۔ جوکو نے دیگر حکمرانوں کے برعکس عوام پر ٹیکس بھی نہیں لگائے جو رقم جمع کرنے کا روایتی سرکاری طریقہ ہے۔

گورنر بن کر بھی جوکو نے سادگی کا زیور پہنے رکھا۔وہ آئے دن کچی بستیوں اور محلوں میں جا کر غریبوں سے ملتے اوران کے دکھڑے سنتے۔تب ان کے ساتھ خوفناک گارڈوں کا ٹولہ ہوتا نہ مصنوعی اکڑفوں اور پھوں پھاں کا ماحول!سادہ لباس میں ملبوس جوکو حقیقتاً عوامی نمائندے نظر آتے۔
جوکو نے عوام کی بھلائی کا سوچا‘ تو لوگوں نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا اور بہت عزت دی۔ حتیٰ کہ جولائی 2014ء میں صدارتی انتخابات ہوئے‘ تو انڈونیشی عوام نے انہیں صدر بنوا دیا ۔وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے انڈونیشی صدر ہیں۔ ان کا طبقہ امرا‘ بااثر سیاسی طبقے اور فوج سے تعلق نہیں۔ ان کے انتخاب سے انڈونیشی عوام نے دکھا دیاکہ عام آدمی ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جو رہنما عوام دوست اقدامات کرے ‘ وہی حکمران بننے کا بھی اہل ہے۔