زید حامد کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہ پاکستان کے شہری ہیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کو تنہا نہیں چھوڑا کرتیں۔ حکومتیں تو اپنے قاتل شہریوں کو جزیہ دے کر چھڑا لیتی ہیں اور ہماری حکومت ہے جو کہہ رہی ہے کہ زید حامد نے ہمیشہ شر کی بات کی ہے جو پاکستانی حکومت تو برداشت کر سکتی ہے مگر سعودی حکومت نہیں۔حیرانی ہوتی ہے ایسی سوچ پر اور ایسے ردِعمل پر۔ ہماری حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سعودی حکومت سے رابطہ کرتی اور زید حامد کو بخیریت واپس لاتی ناں کہ کہتی کہ سعودی حکومت نے پاکستانی شہری کو اس کیخلاف بیان بازی پر سزا دی ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ دونوں حکومتوں نے مل کر زید حامد کے تنقیدی خیالات کا ایسا حل نکالا ہے جس پر کسی کو کم ہی اعتراض ہو گا۔
سعودی حکومت کا یہ قانون کہ وہ غیرملکی باشندوں کو اس کیخلاف بولنے پر سزا دے سکتی ہے ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ زید حامد کو ایئرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کر دیتی یا پھر پاکستانی حکومت سے شکائت کرتی۔ مگر یہ کیا کہ پہلے زید حامد کو داخلے کی اجازت دی، پھر انہیں گرفتار کیا اور عدالت سے سزا دلوادی۔یہ کسی بھی طرح اسلامی اور دنیاوی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ دنیا کے جو ممالک انسانی حقوق کی آزادی کی آڑ میں نبی پاک کے کارٹون چھاپتے ہیں ان کیساتھ سعودیہ سفارتی تعلقات نہیں توڑتا مگر ایک عام آدمی جس نے ان کیخلاف بات کی، اسے سزا دے دی کیونکہ اس کا والی وارث کوئی نہیں ہے۔