کل ٹونٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کا مقابلہ انڈیا کیساتھ تھا۔ شعیب کی خوش قسمتی کہ اس نے ٹاس جیت لیا اور انڈیا کو کھیلنے کی دعوت دی۔ محمد آصف کی جاندار بولنگ نے میچ پاکستان کے حق میں کردیا۔ لیکن شاہد آفریدی اور یاسر عرفات نے اپنی ناکام باؤلنگ کی وجہ سے انڈیا کو سکور کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ انڈیا نے پاکستان کو 141 رن کا ٹارگٹ دیا۔

 ہمارا خیال تھا کہ محمد حفیظ، سلمان بٹ، کامران اکمل اور شاہد آفریدی ملکر چودہ اوور میں 142 رنز بنا کر انڈیا کو ٹورنامنٹ سے ہی باہر کردیں گے مگر شومئی قسمت کہ ہمارے بیٹسمین بھی انڈین کی طرح ریت کے ڈھیر کی طرح اڑنے لگے۔ اگر مصباح الحق کا مقامی کرکٹ کا تجربہ کام نہ آتا تو ہماری کرکٹ ٹیم سو سے پہلے ہی ڈھیر ہوجاتی۔

 مگر مصباح کے بین الاقوامی تجربے کی کمی تب محسوس ہوئی جب وہ دباؤ میں آخری دو گیندوں پر ایک رن نہ بنا سکے اورجیتا ہوا میچ “بال آؤٹ” کیلیے کھلا چھوڑدیا۔ اب “بال آڎٹ” میں ٹاس جیتنے کے باوجود ہمارے کھلاڑی ایسے ناکام ہوئے کہ ایک بار بھی وکٹوں میں گیند نہ مار سکے اور جیتا ہوا میچ انڈیا کی گود میں رکھ دیا۔

آج کے میچ میں ہمارے کھلاڑیوں کی ناتجربہ کاری کھل کر نظر آگئ اور اگر ان کا یہی کھیلنے کا انداز رہا تو امید کم ہی ہے کہ پاکستان سیمی فائنل تک پہنچ سکے۔ یہی حال انڈیا کا بھی ہے اور وہ بھی کوئی اچھے کھیل کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ “بال آڎٹ” میں میچ جیت گئے۔

ہم پھر شاہد آفریدی اور دوسرے کھلاڑیوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ کرکٹ کو کرکٹ سمجھ کر کھیلیں گلی ڈنڈا نہیں۔ اگلے میچز اب بڑی ٹیموں کیخلاف ہیں اور ایک میچ کی ہار بھی ٹیم کو مشکلات کا شکار کرسکتی ہے۔

 دراصل ہم بھولے ہیں جو ایک نوجوان اور نئی ٹیم سے بہت زیادہ اچھی پرفارمنس کی توقع لگا بیٹھے ہیں۔ اس طرح کی ٹیم کی فتح کسی معجزے کی طالب ہوتی ہے اور ہم بدقسمت لوگوں سے معجزے بھی آجکل روٹھے ہوئے ہیں۔