مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہوئے آج پورے چھتیس سال ہوگئے ہیں اور ان چھتیس سالوں میں دونوں ملکوں نے دوبارہ قریب آنے کے ذرہ برابر کوشش نہیں کی۔ دیوار برلن گرنے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ شاید پاکستان کے دونوں حصے بھی دوبارہ ایک ہوجائیں مگر ہم یہ بھول گئے کہ دیوار برلن گرنے کے پیچھے ایک سپر پاور کا ہاتھ تھا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے پیچھے بھی اسی سپر پاور کا ہاتھ تھا تو یہ سپر پاور کیسے گوارہ کرے گی کہ بنگلہ دیش اور پاکستان دوبارہ ایک ہوجائیں۔
ایک پارٹی میں ہم سب پاکستانیوں کے درمیان ایک بنگالی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر تسدیق نامی اس بنگالی نے فزکس میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے اور اس نے شادی اپنی ایک پاکستانی کلاس فیلو سے کی ہوئی ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا منظر انہوں نے ڈھاکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہم نے تجسس سے ان کے خیالات جاننے کیلیے پوچھا کہ اس وقت بنگالی واقعی علیحدگی چاہتے تھے۔ ان کی یہ بات سن کر ہم حیران ہوگئے کہ اس وقت بنگالی بالکل علیحدگی نہیں چاہتے تھے بلکہ اکثریت کی یہ رائے تھی کہ حکمرانی کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ کچھ کہتے تھے کہ ہوسکتا ہے مجیب الرحمٰن اور بھٹو آپس میں مل کر اڑھائی اڑھائی سال حکومت کرلیں۔ علیحدگی کی تحریک نے زور تب پکڑا جب اندراگاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوج داخل کردی۔
ہم نے ان سے پاکستان آرمی کی قتل و غارت کے بارے میں بھی پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان آرمی نے تبھی قتل و غارت کی جب ان پر مکتی باہنی حملہ کردیتی تھی۔ دراصل مکتی باہنی کے لوگ آرمی پر چھپ کر حملہ کرتے اور بھاگ جاتے۔ بعد میں جب فوجیوں کو معلوم ہوتا کہ مکتی باہنی کے لوگ فلاں گاؤں میں چھپے ہوئے ہیں تو وہ انہیں ڈھونڈنے کا خطرہ مول لینے کی بجائے پورے گاؤں کو آگ لگا دیتے تھے۔
ہم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ موجودہ بنگالی نسل کا پاکستانیوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ کہنے لگے کہ مسلمان ہونے کے ناطے بنگالی پاکستانیوں کو اب بھی انڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس سال تصدیق صاحب بنگلہ دیش گئے تو انہوں نے ایک عزیز کے گھر نوجوانوں کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ٹی وی پر دیکھتے ہوئے دیکھا۔ نوجوانوں کی نوے فیصد اکثریت پاکستان کی سائڈ پر تھی اور دس فیصد انڈیا کی طرف۔
اب بھی اگر دونوں ملکوں کی حکومتیں چاہیں تو پاکستان کے دونوں حصے پھر قریب آسکتے ہیں مگر دونوں حکومتوں میں شامل حکمران نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ ایک ہو کر اپنی کرسی پر لات مار لیں۔ اگر عام پبلک سے رائے لی جائے تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت دوبارہ متحد ہونے کا خيال ظاہر کردے مگر کیا کیا جائے وڈیروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا جو اپنے مفاد کی خاطر دونوں حصوں کو کبھی ایک نہیں ہونے دیں گے۔ یہ معجزہ تبھی رونما ہوسکتا ہے جب دونوں ملکوں پر خالص عوامی حکومتیں آئیں گی اور وہ بھی جو عام طبقے کی نمائندگی کریں گی ناں کہ ایلیٹ کلاس کی۔
2 users commented in " ایک بنگالی کے تاثرات "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرے خیال میں بنگالی اتنے بیوقوف نہیںہونگے کہ وہ دوبارہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی بات کریں۔ اسوقت ہم سے ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں اور اگر نہیں تو ترقی کر رہے ہیں۔ تعلیم اور معیشت کے شعبے ان کے ہمارے ہاں سے بہتر ہیں۔
ساجد اقبال صاحب نے صحیح کہا ہے ۔ بنگال میں تعلیم 1970 سے پہلے بھی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی مگر اب وہ بہت آگے جا چکے ہیں ۔ اس وقت کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں نمایاں فرق یہ تھا کہ بنگالیوں میں انکساری تھی اور وہ منہ پر بات کرتے تھے ۔ مغربی پاکستان میں بہت کم لوگوں میں یہ خواص پائے جاتے تھے ۔ ان کی براہ راست گفتگو کا ایک واقعہ ہے کہ ایک لڑکے کو ایک لڑکی پسند آ گئی اس نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ اسکی ماں نے کہا کہ جا کر اس سے پوچھ کہ وہ تجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ اس پر اس نے اس لڑکی کو جا کر بغیر کسی تمہید کے کہا تو مجھ سے شادی کرے گی ۔ لڑکی نے جواب دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر تو شادی کرنا چاہتا ہے تو اپنی ماں کو میری ماں کے پاس بھیج ۔
Leave A Reply