کچھ عرصے سے اسلام آباد کو خاص مواقع پر سیل کیا جارہا ہے۔ مثلاً آج ہی کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اسلام آباد آنے والے تمام راستے رکاوٹیں کھڑي کرکے سیل کردیے گئے تھے۔ اسی طرح چند روز قبل جب اے پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے گھیراؤ کی کال دی، تو نہ صرف اسلام آباد کو سیل کردیا گیا بلکہ دوسرے شہروں سے آنے والی ٹریفک بھی پلوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے روک دی گئی۔

 جی ٹی روڈ کی ٹریفک بند کرنے سے جو تکلیف مسافروں کو ہوتی ہوگی اس کا سوچ کر ہی اپنا حلق خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ذرا سوچیے آپ پشاور سے اسلام آباد اپنے کاروبار کے سلسلے میں یا چھٹی گزار کر گھر آتے وقت یا سرکاری کام کے سلسلے میں سفر کررہے ہوں اور آپ کو اٹک کے پل پر روک دیا جائے اور وہاں پر ٹریفک کی لائنیں لگ جائیں، نہ آپ ٹریفک سے نکل سکیں اور نہ واپس جاسکیں تو کیا آپ پھر بھی موجودہ حکومت کو ووٹ دیں گے؟ کبھی نہیں۔

پہلے کسی سرکاری شخصیت کی آمد پر جی ٹی روڈ کی ٹریفک چند لمحوں کیلیے بلاک کی جاتی تھی یا پھر شہر کی سڑکیں بند کردی جاتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ جی ٹی روڈ کئی کئی گھنٹے بند کردی جائے اور کوئی متبادل راستہ بھی نہ دیا جائے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اسلام آباد سیل ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ملازمین وقت پر کام پر نہ پہنچ سکے اور سپریم کورٹ نے تمام آفیسرز کو بلا کر نہ صرف راستے کھلوائے بلکہ معافی بھی منگوائی۔

جب اتحادیوں نے عراق پر قبضہ کیا، انہوں نے ایک خاص علاقے کو کنکریٹ کی بڑي بڑي دیواریں کھڑي کرکے سیل کردیا اور اسے گرین زون کا نام دے کراپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا۔ یہ تو گرین زون والے جانتے ہوں گے کہ اس علاقے کو ہی گرین زون کیوں کہا جاتا ہے اور پورے عراق کو کیوں نہیں۔ اس گرین زون کو جانے والے تمام راستوں پرسکیورٹی تعینات ہے جو ہر آنے جانے والے کو چیک کرتی ہے۔ حتیٰ کہ عراقی حکومت بھی اس قابل نہیں کہ وہ کھلی جگہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلا سکے اور وہ بھی تمام حکومتی نظام اسی گرین زون کے اندر سے چلا رہی ہے۔

کیا اسلام آباد کو بھی تو آہستہ آہستہ گرین زون بنانے کی سازش تو نہیں کی جارہی؟ دراصل موجودہ حکومت سے پہلے اسلام آباد ایک غیرسیاسی شہر ہوتا تھا اور یہاں پر صرف سرکاری دفاتر ہوتے تھے۔ موجودہ حکومت کے غیرمقبول عوامی اقدامات نے اسلام آباد کو بھی سیاست میں ملوث کردیا ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتیں اب دوسرے شہروں کی بجائے اپنے جلسے اور احتجاج اسلام آباد میں کرنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام آباد میں حزب اختلاف کے جلسے جلوس ناکام بنانے کیلیے شہر کے راستوں کو سیل کردیا جاتا ہے۔ حکومت اپنی طاقت اور وسائل کے بل بوتے پر حزب اختلاف کے جلسے جلوس تو ناکام بنا دیتی ہے مگر عوام کو جو تکلیف ہوتی ہے اس کا ازالہ نہیں کرپاتی۔ ہوسکتا ہے عوام آئے دن کے ان ٹریفک مسائل سے تنگ آکر ایک دن حکومت کے خلاف وکلاء تحریک کی طرح متحد ہوجائیں۔ تب حکومت کے ہوش شاید ٹھکانے لگیں۔

حکومت اگر اسلام آباد کے رہائشیوں سے مخلص ہےتو اسے اسلام آباد کو پھر سے غیرسیاسی شہر بنانا ہوگا۔ اسلام آباد کو غیرسیاسی شہر بنانے کیلیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دوسرے شہروں میں جلسے جلوس کی اجازت دے دی جائے۔ اسلام آباد کو سرکاری دفاتر کا شہر قرار دیا جائے اور یہاں سے تمام سیاسی دفاتر اور اداروں کو شہر سے باہر منتقل کردیا جائے۔ صرف قصر صدارت، وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ یہاں رہے۔ جب تک حکومت سیاسی جماعتوں کو دوسرے شہروں میں اظہار رائے کی آزادی کی ترویج نہیں دے گی اسلام آباد کے ملازمین ٹریفک سیل کے مسائل سے دوچار ہوتے رہیں گے۔

خدارا اسلام آباد کو گرین زون بننے سے بچائیے اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر سوچیے۔ آئے دن سڑکیں سیل کرکے عوام کو اتنا مجبور نہ کیجئے کہ ایک دن وہ حکومتی دفاتر کو ہی سیل کردیں۔