ابھي پہلي تيل کي قيمتوں کي ايڈجيسٹمنٹ ہوئي نہيں تھي اور ٹرانسپورٹ والے ہڑتال کا سوچتے ہي رہ گۓ کہ پيٹروليم ايڈوائزري کميٹي نے ايک دفعہ پھر تيل کي قيمتيں بڑھا دي ہيں اور بڑھائي بھي تھوک کے حساب سے ہيں۔ کہتے ہيں کہ پچھلے دو سال ميں تيل کي قيمت بيس سے زيادہ دفعہ بڑھائي گئ ہے۔ لکھنے والے لکھتے رہيں حکومت کو اثر ہونے والا نہيں کيونکہ اب حکومت بھي اندھي ہو چکي ہے۔ غضب خدا کا مٹي کا تيل32.89 روپے ليٹر ہوگا تو غريب کے گھر چولہا خاک جلے گا۔ لگتا ہے اب بہو بيٹيوں کو خود کشي کيلۓ تيل کي بجاۓ کوئي اور بندوبست کرنا پڑے گا۔ حيراني کي بات يہ ہے کہ نہ حزبِ اختلاف کے کانوں پر جوں رينگ رہي ہے اور نہ عوام مہنگائي سے تنگ آئي ہے۔
يوں لگتا ہے ہمارے لوگ اب اتے امير ہو چکے ہيں کہ ان کيلۓ تيل کي قيمتيں کوئي مسلہ نہيں رہيں۔ حکومت کو معلوم ہے کہ نہ حزبِ اختلاف بولے گي اور نہ عوام ، جتنا لوگوں کا خون چوسنا ہے چپ چاپ چوس لو۔ ايوب کے دور ميں چيني ذرا سي مہنگي ہوئي تھي تو ملک ميں بھونچال آگيا تھا مگر اب روز روز کي قيمتيں بڑھنے سے ہمارے معمولاتِ زندگي ميں بلکل فرق نہيں پڑ رہا۔ انقلاب دنيا ميں جب بھي آۓ غربت کي وجہ سے ہي آۓ اور پاکستان ميں بھي جب بھي انقلاب آۓ گااسي مہنگائي کي وجہ سے آۓ گا۔ يہ انقلاب کب آۓ گا يہ اب عوام پر پر منحصر ہے کہ ان کي برداشت کب جواب ديتي ہے۔