جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے کم از کم پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی پارٹی یا سیاستدان نہیں دیکھا جس نے سرعام کہا ہو کہ وہ باعمل مسلمان نہیں ہے۔ ہرکسی نے مذہب کو ڈھال بنا کر سادہ دل عوام پر حملہ کیا ہے اور فتح بھی حاصل کی ہے۔ چاہے ایم ایم اے ہو، جمہوری اتحاد ہو، جنرل ضیاء کا مارشل لاء ہو، پی پی پی ہو یا جنرل مشرف ہو، سب نے اسلام کے نام پر سیاست کی ہے۔

 جنرل مشرف کی روشن خیالی روز اول سے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر انہیں بھی عوام کو دھوکہ دینے کیلیے کئی دفعہ سعودی عرب عمرے کیلیے جانا پڑا ہے۔ بلکہ انہوں نے سرعام دعویٰ کیا ہے کہ صرف انہیں خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔

بھٹو کتنا بڑا بےعمل مسلمان تھا سب جانتے ہیں مگر جب اس پر افتاد پڑی تو اس نے پہلے قادیانوں کوغیرمسلم قرار دیا اور بعد میں جب ذرا سی پینے کے اعتراف پر شور مچا تو اسے شراب پر پابندی بھی لگانی پڑی۔

جنرل ضیاء جب اقتدار میں آئے تو وڈیروں کی طرح بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دینے ہوئے نظر آئے۔  مگر جب افغان جہاد کا وقت آیا تو انہوں نے نہ صرف ہررمضان کی ستائیسویں کی رات خانے کعبے گزارنی شروع کردی بلکہ سرکاری محکموں میں پانچ وقت کی نماز کیلے وقفہ کردیا۔ یہ وہی تھے جن کی مونچھیں بعد میں چھوٹی ہونی شروع ہوگئیں اور انہوں قومی شلوار قمیض کے ساتھ شیروانی کو رواج دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ گیارہ سالہ اقتدار میں اسلام نافذ نہ کرسکے۔

اس کے بعد بینظیر کی حکومت آئی اور جونہی بینظیر نے مذہبی دباؤ محسوس کیا تو انہوں نے سر پر دوپٹہ لے لیا اور ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی۔

اسی طرح ایم ایم اے اور مسلم لیگ ن نے بھی مذہب کےنام پر ووٹ لیے اور اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا۔ نہ نوازشریف اسلامی نظام نافذ کرسکے اور نہ ہی ایم ایم اے سرحد میں حسبہ بل سے آگے بڑھ سکی۔

موجودہ حکومت کے زیادہ تر سیاستدان روشن خیال اور جدت پسند ہیں۔ انہی کی روشن خیالی کی وجہ سے اب معاشرہ مذہب سے کافی آزاد ہوتا جارہا ہے مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ حکومتی سیاستدان مذہب کو مکمل طور پرخيرباد کہ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی بھی وہ اپنی مذہبی مصروفیات کو عیاں کرنے ميں شرم محسوس نہیں کرتے۔ اب خدا جانتا ہے کہ ان حکومتی سیاستدانوں اور امراء کو مذہب سے کتنا لگاؤ ہے اور ان کی اسلامی تعلیم کتنی ہے۔ ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ سیاستدان اور امراء کم ہی مذہبی ہوتے ہیں اور جومذہبی نظر آتے ہیں وہ دکھاوا کررہے ہوتے ہیں۔ مذہب ہے ہی صرف غریب کیلیے تاکہ وہ اپنی محرومیوں کو خدا کی رضا کہ کر اپنے نفس کو مطمن کرسکے۔ یہی امراء کیلیے بہتر ہے ورنہ غریب لوگ انہیں اپنی غربت کا ذمہ دار ٹھرا کر ان کا جینا حرام کردیں۔

کل جب بینظیر وطن واپس آئیں تو انہوں نے بھی مذہب کو خوب استعمال کیا۔ انہوں نے سر سے دوپٹہ بھی سرکنے نہیں دیا اور ہاتھ سے تسبیح بھی نہیں چھوڑی۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ تسبیح کے دانے گراتے ہوئے اللہ کا ذکر کررہی تھیں یا اپنی آنے والی حکومت میں منافع کا حساب لگا رہی تھیں۔ جب وہ جہاز سے اتریں تو ان پر قرآن کا سایہ کیا گیا۔ ہم نے آج تک بینظیر کےمنہ سے سوائے بسمہ اللہ کے کوئی عربی کا کلمہء خیر نہیں سنا۔ اب یہ اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے قرآن کا کتنا مطالعہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح ان کے دونوں بازوؤں پر کچھ تعویز بندھے نظر آئے جو بعد میں پتہ چلا کہ امام ضامن ہیں۔ امام ضامن اکثر شیعہ حضرات ناگہانی بلاؤں سے بچنے کیلیے باندھتے ہیں۔ بینظیر نے سادہ دل مسلمانوں کو متاثر کرنے کیللے جہاز سے اترتے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ ان کا بس چلتا تو وہ سجدہ ریز بھی ہوجاتیں مگر عورت ہونے کے ناطے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

سادہ دل مسلمان ایک بار پھر اپنے لیڈروں کو اسلیے ووٹ دیں گے تاکہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرسکیں اور انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان لیڈروں کو تو اسلامی نظام سے چھٹکارے کیلیے ان کے آقاؤں نے خصوصی طور پر بھیجا ہے۔ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب ہمارے لیڈران کرام بلا خوف اپنے اصل عقیدے کا اظہار کرسکیں گے؟ شاید کبھی نہیں کیونکہ اس طرح وہ انتخابات ہار جائیں گے۔

ایم ایم اے، پی پی پی، مسلم لیگیں سب مذہب کےنام پر ایک دفعہ پھر اگلے انتخابات میں سادہ دل مسلمانوں کو بیوقوف بنانے جارہے ہیں۔ بی بی نے تو اپنی آمد کیساتھ ہی اس بات کا اظہار کربھی دیا ہے۔

سادہ دل مسلمانو کب تمہیں ہوش آئے گا اور کب تم اپنے لیڈروں کی مکاریوں کو سمجھنے کے قابل ہو گے۔ کب تم نیک دل، مخلص اور محب وطن لیڈر چننا شروع کرو گے؟ ذرا سوچو کیونکہ اسی راہ پر چلنے میں کامیابی ہے۔