ہم چونکہ ایسے طبقہء فکر کے سائے تلے جوان ہوئے جو اسلامی جماعت کو وہابیوں کی جماعت کہا کرتا تھا اسلیے ہماری دوستی تو جمیعت کے دوستوں سے رہی مگر ہم جمیعت سے دور ہی رہے۔
جب ہم یونیورسٹی میں پہنچے تو وہاں بھی اینٹی جمیعت یعنی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف ہمارا جھکاؤ رہا۔ وہیں پر ہمیں امامیہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا بھی پتہ چلا جو خالص شیعہ طلبا تنظیم تھی۔ وہاں ہم نے جمیعت کو ذرا قریب سے دیکھا اور ہمیں جمیعت اور پی ایس ایف میں کوئی خاص فرق محصوص نہیں ہوا۔ پی ایس ایف اگر پی پی پی کی طلبا تنظيم تھی تو جمیعت جماعت اسلامی کی۔ ایک اگر آزاد خیالی میں انتہاپسند تھی تو دوسری مذہبی انتہاپسندی میں۔ یعنی پی ایس ایف کی اکثریت نماز روزے سے دور بھاگتی تھی اور جمیعت سوشل اجتماعات سے۔ ہمارے چار سال کے تعلیمی کیریئر میں پی ایس ایف اور جمیعت کا اِٹ کتے کا بیر رہا۔ پی ایس ایف والوں نے اگر کسی جماعتیے کی ٹھکائی کردی تو جمیعت والوں نے موقع ملتے ہی پی ایس ایف کے رکن کو پیٹ ڈالا۔
یہ بات ماننے والی ہے کہ جمیعت کا نظم و نسق تمام جماعتوں سے بہتر تھا اور ان کے کارکن کا کسی دوسری تنظیم سے تھوڑا سا بھی موازنہ کرنا ناممکن تھا۔ جمیعت والے باقاعدہ اپنا اجلاس کرتے، جس میں کارکنان کی تربیت کا بندوبست ہوتا اور ان کی تربیت کیلیے انہیں ہفتہ وار ٹاسک دیے جاتے۔ پھران کی کارکردگی جاننے کیلیے ان کی پچھلے ہفتے کی مصروفیات کا حساب کتاب لیا جاتا۔
یہی وجہ تھی کہ جمیعت کے تربیت یافتہ طالبعلم بعد میں سیاست میں چھا گئے اور بڑا نام کمایا۔ مولانا کوثر نیازی بھی جماعتی بھگوڑے تھے۔ آج کے لیڈروں اور اہم شخصیات میں ڈاکٹر اسرار احمد، مسلم لیگ نون کے احسن اقبال، کالم نگار ارشاد حقانی وغیرہ جماعتی تربیت کا ایسا شاہکار ہیں کہ لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بناں نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح لیاقت بلوچ، پروفیسر خورشید، امیرالعظیم وغیرہ جمیعت کی تربیت کی وجہ سے ہی آج قومی پائے کے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔
اسلامی جمیعت کے نظم و ضبط نے جہاں اسے ایک مکمل تنظیم کا درجہ دیا وہیں یہ تنظيم سٹریٹ پاور کیلیے بھی مشہور ہوئی۔ بھٹو کی پی پی پی کی 1971 کی انتخابی مہم کے بعد صرف جمیعت ایک ایسی تنظیم تھی جس پر سیاستدان حکومت کیخلاف موثر احتجاج کیلیے بھروسہ کرنے لگے۔ نواز شریف کی فتح میں بھی اسی تنظیم کی کاردگی کا حصہ تھا۔ ہاں کراچی میں جنرل ضیاع کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم نے جہاں پی پی پی کا بستر گول کیا وہیں نورانی میاں اور جماعت اسلامی کی مستقل سیٹيں بھی چھین لیں۔ سنا ہے ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم نے جمیعت والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی کراچی میں اجارہ داری کو ختم کردیا۔
جمعیت کی تربیت کے زیر سایہ پلنے والی شخصیات کی دنیاوی اور دینی کامیابی دیکھنےکے بعد ایک دفعہ تو ہم بھی اس کے گن گانے لگے مگر جب جمعیت اور جماعت اسلامی دونوں نے آمر حکومتوں کا ساتھ دینا شروع کیا تو ہماری رائے جمیعت کے بارے میں بدلنے لگی۔ اسلامی جماعت کا جنرل يحیٰ کے بنائے قانون کو جو لاگو نہ ہوسکا اسلامی قرار دینا۔ پھر جنرل ضیاع کی حکومت کو سپورٹ کرکے ملک پر گیارہ سال فوجی حکومت قائم رکھنے میں مدد دینا اور جنرل مشرف کو سترہویں ترمیم پاس کرکے صدارت کی کرسی بٹھانا جیسے کارنامے جماعت اور جمیعت کے منہ پر ایسی سیاسی مل گئے کہ وہ اس بدنامی کا داغ شاید اب کبھی نہ دھو سکیں۔
بعد میں جماعت نے ایک دفعہ پھر جنرل مشرف کی مخالفت کرکے سترہویں ترمیم کا داغ دھونے کی کوشش ابھی شروع ہی کی تھی کہ جمیعت نے عمران کو حبسِ بیجا میں رکھنے کے بعد گرفتار کراکے جماعت کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ ابھی آج جب ایکپریس میں اسلامی کن کٹے اور وارث میر کے نام سے عباس اطہر نے جمعیت کے ایک اور گناہ سے پردہ اٹھایا تو پھر جمیعت کے انتہاپسند ہونے میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ اطہر صاحب لکھتے ہیں کہ مشہور صحافی حامد میر کے والد وارث میر کو جمیعت والوں نے اتنا تنگ کیا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جمیعت والوں پر تنقید کرتے تھے۔
دراصل ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم جو بھی تنظيم بناتے ہیں اسی کو صیحح اور باقی تنظیموں کوغلط کہنے لگتے ہیں۔ ہم خود کو اتنے اعلیٰ درجے پر فائز کرلیتے ہیں کہ تنقید سے ہمیں وہشت ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری انقلابی تنظیمیں ایک خاص طبقہ فکر تک یا تو محدود رہیں یا انہوں نے الگ سے اپنی پہچان بنا لی یعنی فرقہ بنا لیا اور اس طرح مسلم امہ کے اتحاد کو مزید ایک ٹکڑے میں تقسیم کردیا۔
جمعیت اور جماعت اب ایک خاص طبقہء فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کو عام پبلک میں پذیرائی نصیب نہیں ہوئی بلکہ ان کی ترقی ایک جگہ پر رک سی گئی ہے۔
اب بھی اگر جمیعت چاہے تو اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے خود کو ایک لبرل تنظيم میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں صرف مولانا مودودی کے افکار نہ پڑھائے جائیں بلکہ تمام متکبہء فکر کے صالحین کی سوچ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہی ایک طریقہ ہے اپنے خول سے باہر نکلنے کا اور عالمی سطح پر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا۔ اب پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا جب ایک اسلامی تنظيم کا ظہور ہو گا جو تمام مکتبہء فکر کو قبول ہوگی اور جس کی یونیورسل سوچ سے مسلمانوں میں ایک انقلاب برپا ہو گا۔
6 users commented in " اسلامی جمیعت طلبہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں تو یہ سمجھتا ہوں کے جمیعت تو مولانا موددی کے افکار پر بھی عمل پیرا نہیں ہے۔۔ جمیعت کا فلسفہ یہ ہے کہ بزور بازو اپنا قانون نافذ کردو اور جب یہی کام دوسرے لوگ کرتے ہیں تو یہ انکو فاشسٹ کہتے ہیں ۔۔یہ سرخوں کے سب سے زیادہ خلاف ہیں لیکن چین اور روس جیسا سخت معاشرہ بھی بنانا چاہتے ہیں ۔۔ جہاں امیر المومنین کی جنبش ابرو سے سارے معاملے چلتے ہوں۔۔ یہی وجہ ہے کہ آمر عظیم ضیاء ان لوگوں کا آئیڈیل تھا۔
Abbas Athar
http://www.express.com.pk/epaper/Article.aspx?newsID=1100303230&Date=20071122&Issue=NP_LHE
aur Rais Fatima
http://www.express.com.pk/epaper/Article.aspx?newsID=1100303510&Date=20071122&Issue=NP_LHE
ایم کیو ایم، ترا شکریہ، جمعیت کو کراچی میں سبق سکھانے کا۔۔۔۔۔ اور ان کو ان کی اوقات یاد دلانے کا۔۔۔۔۔ یہ باریش ابلیس صرف پنجاب والے ھی قبول کر سکتے ھیں، کراچی والے نھیں۔۔۔۔۔
راشد نے ٹھیک کہا ہے کہ جمعیت امام مودودی کے افکار کی صحیح ترجمان کبھی نہیں رہی ۔ انہوں نے تو ہمیشہ رواداری ، تحمل اور میانہ روی کی بات کی ہے ۔ میں جمعیت سے کافی قریب رہا ہوں ۔ رفیق بھی رہا ہوں اور جمعیت کے لئے کام بھی کیا ہے تاہم باقاعدہ رکن نہیں بنا کیونکہ میں نے جمعیت کو اپنے مزاج کے مطابق نہیں پایا ۔ جمعیت میں سختی کا عنصر خرم مراد اور خورشید احمد کے دور سے آیا ہے جب وہ ناظم اعلیٰ تھے ۔ خاص طور پر خرم صاحب اپنے زمانہ طالب علمی میں (جب وہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ بھی تھے ) مصر کے اخوان المسلمون اور امام حسن البنا اور سید قطب کے افکار اور طریقہ کار سے کافی متاثر تھے ۔ انہوں نے عرب اور ہندی (یا جنوب ایشیائی) مزاج میں فرق کو سمجھا ہی نہیں اور وہی افکار اور تربیت کا طریقہ رائج کرنے کی سعی کی جس سے انتہاپسند قسم کے خیالات کو نمو ملی ۔ بعد میں خرم جاہ مراد صاحب تصوف کی طرف نکلتے ہوئے محسوس ہوئے اور انہوں نے اپنا مزاج کو کافی حد تک میانہ رو بنالیا لیکن مصری انقلابی سوچ کی چھاپ ان کے ذہن پر پھر بھی رہی ۔
قاضی حسین احمد بھی جمعیت کے رکن رہ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ منور حسن ، سراج الحق ، پروفیسر ابراہیم ، پروفیسر خورشید بلکہ جماعت اسلامی کی موجودہ اعلیٰ قیادت تقریبا پوری کی پوری جمعیت سے آئی ہے ۔
الطاف نائی زندہ باد،
الطاف نائی زندہ باد
، الطاف نائی زندہ باد،
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ انتہا پسند ہے۔ اب یہ دیکھیے نا۔ عباس اطہر صاحب انتہا پسند نہیںہے؟ اگر ان کی باتوںمیںجان ہوتی تو وہ باتیں پہلے بھی لکھ سکتے تھے۔ لیکن نہیں! ان کو ایک ایسے موقع کی تلاش تھی جس میںجمیعت کے خلاف ایسا ماحول بنایا جائے جس میںہر کوئی اطہر صاحب جیسے فاشسٹو ں کی بات پر یقین کرلیں۔ اور یہ کام بھی افسوس، ان لوگوں نے انجام دیا جن کو مولانا مودودی ان کی جماعت اور طلبہ تنظیم کے علاوہ کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ آئی ایس او اس سازش میںآگے آگے رہی۔ یا شاید آئی ایس او نے حسینی ہونے کے بجائے کوفی ہونے کا ثبوت دیا۔ جہاں تک سبق سکھانے کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ایم کیو ایم کو پنجاب بھیج دے پھر پتہ چلے گا دہشت گردی کیا ہوتی ہے۔ جہاں تک جمیت کا تعلق ہے تو کراچی میں جمیت آج بھی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اور ہاں مجھے تو پاکستانیت کے علمبرداروںپر افسوس ہوتا ہے جو عمران خان کے پنجاب یونیورسٹی آنے کو جسٹیفائیڈ کر تے ہیں۔ جامعہ پنجاب سے ملک میںانقلاب لانے والے عمران خان اور ان کے منہ بولے باپ قاضی حسین احمد اور امیر الظیم وغیرہ کہاںہیں؟ بس بائی کاٹ کا اعلان کافی تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایجنسیوں کے اشاروںکا انتظار ہے۔ یہی جماعتیںمل کر دنیا کے سب سے بے غرض اور مخلص طبقے طلبا کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ مبارک ہو آپ جیسے بلاگرز اور صحافت کے اصولوں سے ناآشنا عباس اطہر کو جو اس کام میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کاش بلاگ لکھنے سے پہلے سیاست اور صحافت کے بارے میںکچھ پڑھ لیا ہوتا آپ ساتھیوں نے تو آج آپ کی رائے دوسری ہوتی۔
Leave A Reply