یہ 2007 کا سال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ٹونٹی 20 کرکٹ کے نئے فارمیٹ کی طرح بہت ہیجان خیز رہا۔ اس سال سیاست کے تمام کرداروں نے اتنے اتار چڑھاؤ دیکھے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہوں اور فلم بھی ایسی جس کے اینڈ کا کسی کو پتہ نہ ہو۔

اگر فلمساز چاہے تو اس سال پر ایک فلم بنا سکتا ہے جس کا آغاز وہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس سے کرے اور پھر اس فلم میں جتنے چاہے موڑ ڈال دے۔

چیف جسٹس کے ریفرینس میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وکلا ان کے حق میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور پھر سپریم کورٹ کے ان ججوں کو جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا رکھا تھا اپنے ہاتھوں سے چیف جسٹس کوبحال کرنا پڑے گا۔

پھر نواز شریف کا سپریم کورٹ کی اجازت سے واپس آنا اور آخر تک کسی کو معلوم نہ پڑنا کہ ان کیساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا۔ اس کلائمیکس کو نواز شریف کو سعودی عرب والوں کی مدد سے واپس بھیج کر پورا کیا گیا۔ اس کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستانی سعودی عرب کو لعن طعن کرنا شروع کردیں گے۔

پھر جنرل مشرف کا صدارت کا انتخاب لڑنا اور بعد میں ان کیخلاف سپریم کورٹ کا سٹے آرڈر دینا فلم کے ایک اور کلائمیکس کو شروع کرتا ہے۔ اس کلائمیکس کو ایمرجنسی لگا کر توڑنا خلاف توقع تو نہ تھا مگر حیران کن ضرور تھا۔

ایمر جنسی میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ریکارڈ تعداد میں پی سی او کے تحت دوبارہ حلف سے انکار فلم میں انہیں ہیرو بنا دیتا ہے۔

اسی دوران حکومت کا بینظیر کے ساتھ مک مکا بھی کہانی کو ایک خوبصورت موڑ دیتا ہے جس میں جنرل مشرف جو آٹھ سال سے بینظیر کی کرپشن کو برا بھلا کہتے رہے اور انہیں اپنی زندگی میں پاکستان واپس نہ آنے کا اعلان کرتے رہے اچانک اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق بینظیر کو ملنے دوبئی جاتے ہیں۔  اس کے بعد بینظیر کے حق میں ایک مفاہمتی آڑڈینینس پاس ہوتا ہے اور بینظیر پاکستان واپس آجاتی ہے۔ کہانی کا یہ حصہ کلائمیکس پر پہنچ جاتا ہے جب بینظیر کے استقبالی جلوس میں دہشت گردی ہوتی ہے اور دو سو افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

پھر ایمرجنسی سے ایک روز پہلے بینظیر کا دبئی واپس چلے جانا اور اگلے ہی دن پاکستان آجانا ایک اور سسپنس پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد بینظیر جو جنرل مشرف کیخلاف اچانک بیان دینا شروع کردیتی ہے اور اس کی وجہ سے کہانی کا یہ حصہ سب کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بینظیر جنرل مشرف کی ٹیم میں ہیں یا ان کے مخالف گروپ میں۔

ایمرجنسی کیخلاف عمران خان کی زیرزمین مزاحمت اور پھر اچانک پنجاب یونیورسٹی میں نمودار ہو کر جمیعت کے ہاتھوں پٹنے کے بعد گرفتاری دینا اس کہانی میں ایک اور سین کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس فلم میں جنرل مشرف جو ویلن کاکردار ادا کررہے ہیں انہیں جمیعت کی شکل میں اپنا جوٹی دار مل جاتا ہے۔ جمیعت کی یہ غلطی اس کی ساٹھ سالہ کارکردگی پر ایسا بٹا لگاتی ہے جو وہ مدتوں نہ بھول سکے گی۔

کہانی آگے بڑھتی ہے اور حلف زدہ سپریم کورٹ ایمرجنسی کو جائز قرار دینے کیساتھ ساتھ جنرل مشرف کو صدارت کا سرٹیفکیٹ دے دیتی ہے اور ساتھ ہی اپنے ساتھی ججز جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا ہوتا کو برطرف کرکے بیوفائی کا مسالہ فلم میں شامل کردیتی ہے۔

چند روز قبل جنرل مشرف اچانک مختصر دورے پر سعودی عرب چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد نواز شریف کی واپسی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔

اپوزیشن انتخابات کے بائیکاٹ اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا کھیل ساتھ ساتھ کھیل کر فلم بنیوں کو سکتے میں ڈالے رکھتی ہے۔

اسی دوران ملک کے  درآمد شدہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اگلے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرکے کہانی میں ایک اور سسپنس پیدا کردیتے ہیں۔

ابھی انتخابات ہونے ہیں، جنرل مشرف نے وردی اتارنی ہے اور صدارت کا حلف اٹھانا ہے، نواز شریف کو واپس آکر کہانی کو نیا موڑ دینا ہے، اپوزیشن کو انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کرنا ہے۔ یعنی اداکار شاہ رخ کے ایک تازہ ڈائیلاگ کے مطابق “پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست”۔