صدر نے ایک حکم کے تحت ایمرجنسی اور پی سی او ختم کرکے 1973 کا مسخ شدہ ہوا آئیں بحال کردیا ہے۔ مسخ شداہ اس لیے کہ اس قالین میں اب اتنے ٹاٹ کے پیوند لگ چکے ہیں کہ یہ قالین کم اور ٹاٹ زیادہ نظر آتا ہے۔ چلیں یہ آئین کم از کم معطلی سے تو بہتر ہی ہے۔

خودغرضی کی انتہا دیکھیں کہ عوام کے فائدے کی بجائے اپنے فائدے کیلیے آئین میں تبدیلیاں کی گئ ہیں۔ آئین سے وہ کلاز ہٹا دی گئی ہے جس میں صدر کے 31 دسمبر 2004 کو وردی اتارنے کا ذکر تھا۔ اس میں ایک اور کلاز میں تبدیلی کی گئی ہے جس کی رو سے صدر پر سرکاری ملازم والی دوسال کی پابندی سے بھی مبرا ہوں گے۔ صرف اسلام آباد میں ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کیلیے گورنر کی مشاورت کی ضرورت ختم کردی گئی ہے۔ چیف ایگریکٹو کے بعد صدر کی مدت والے معاملے کو بھی نپٹا دیا گیا ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں وہ ہیں جو پہلے قانونی لحاظ سے غیرقانی تھیں اور سپریم کورٹ ان پر ایکشن لے رہی تھی۔ آئین میں تبدیلی کرکے ان غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ سرکار کو بھی معلوم تھا کہ یہ اقدامات غیرقانونی ہیں۔

ایمرجنسی اور پی سی او کے تحت اٹھائے گئے اقدامات آئین کا حصہ بن گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں کوئی عدالت بھی تبدیل نہیں کرسکے گی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں نے دوبارہ آئین کے تحت حلف اٹھا لیا ہے۔ یہ ن ججوں کا چوتھا حلف ہے۔

صدر نے مطلق العنانی برقرار رکھتے ہوئے آئین میں تبدیلی کرکے اس میں مزید تبدیلیوں کا اختیار بھی حاصل کرلیا ہے۔ اس طرح ایک شخص نے بیسیوں لوگوں کو دوبارہ حلف اٹھوایا اور یہ ثابت کیا کہ وہی عقل کل ہے باقی سب پیدل ہیں۔

دیکھا جائے تو ایمر جنسی کا جو خاص مقصد بیان کیا گیا تھا یعنی ملکی حالات تو وہ تو جوں کے توں ہیں سوائے سوات میں فوج کے کنٹرول کے۔ لیکن صدرمشرف نے جو مقاصد حاصل کرنے کیلیے ایمرجنسی لگائی تھی وہ انہوں نے حاصل کرلیے ہیں۔ ان کے مقاصد میں چیف جسٹس اور ان کے حواری ججوں سے چھٹکارا اور اگلے پانچ سال کیلیے صدارت کا عہدہ تھا۔

اب انتخابات کے جس طرح کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ موجودہ صدارتی آرڈیننسوں کو اسمبلی سے منظور کرانے میں صدر مشرف کو کوئی دقت پیش نہیں آۓ گی۔

عوام کو آئین کی بحالی سے کچھ نہیں ملا۔ آٹے کا بحران اب بھی جاری ہے۔ لوگ پہلے بھی غائب ہوتے تھے اب بھی ہوتے رہیں گے۔ فائدہ ہوا ہے تو صرف اشرافیہ اور ان کے بین الاقوامی آقاؤں کو۔