امریکہ اور کینیڈا کی عدالتوں میں جیوری کا نظام بہت پہلے سے نافذ ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جج کی بجائے مقدمے کا فیصلہ عام پبلک سے چنے ہوئے چھ سے بارہ افراد کرتے ہیں اور جج صرف سزا سناتا ہے۔ اس طرح کرپشن ہونے کے چانسز کم ہو جاتے ہیں۔ یعنی نہ تو ایک آدمی فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے جسے آسانی سے خریدا جاسکے اور دوسرے ہرمقدمے میں جیوری مختلف ہوتی ہے اور جیوری کے ممبران شہر کے ہر کونے سے بلائے ہوئے افراد میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اس طرح مقدمے کےفریق نہ تو اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ جیوری کے سارے ممبران کی سفارش ڈھونڈ سکیں اور نہ ہی رشوت کیلیے انہیں اپروچ کرسکیں۔

 جیوری ڈیوٹی کیلیے حاضر سروس لوگوں کو ان کی کمپنیاں چھٹی دیتی ہیں۔ اگر اس ملک کا شہری جیوری ڈیوٹی کیلیے بلائے جانے پر کورٹ میں حاضر نہ ہو تو اسکیلیے بھی قانون میں سزا رکھی گئی ہے۔

آئیں ہم آپ کو اس ہفتے ایک عدالتی مقدمے کی کاروائی سنانے ایک عدالت میں لیے چلتے ہیں۔ آپ اس مقدمے کے فیصلہ سنائے جانے تک ہمارے ساتھ رہیں گے اور آپ کو مقدمے کی کاروائی کا آنکھوں دیکھا حال ساتھ ساتھ سنایا جاتا رہے گا۔

آج جیوری کا انتخاب ہونا تھا۔ لوگ صبح سے ہی سخت ٹھٹرتی سردی میں کورٹ کے دروازے پر لائن میں لگے ہوئے تھے۔ پہلے سب لوگوں کی سکیورٹی کلیئرنس ہوئی اور سو سے زیادہ لوگوں کو ایک کورٹ روم میں بٹھا دیا گیا۔ اس دوران ٹی وی پر ایک وڈیو کے ذریعے جیوری ڈیوٹی کے فوائد گنوائے گئے اور جیوری سلیکٹ کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ سب سے بڑا فائدہ یہی بتایا گیا کہ جیوری کی ڈیوٹی دے کر جیورر کورٹ سسٹم کو سمجھتا ہے اور انصاف میں مدد کرتا ہے۔

 اپنے وقت پر جج کمرے میں داخل ہوا تو تمام حاضرین ادب سے کھڑے ہوگئے۔ جج نے تعارف کے بعد تین مقدمات کے سلسلے میں جیوری چننے کی اطلاع دی۔ دومقدے کریمینل تھے اور ایک سول لا سوٹ تھا۔ کریمینل کیلیے بارہ بارہ جیوری ممبر کا چناؤ ہونا تھا اور سول لا سوٹ کیلیے چھ کا۔

کورٹ میں بیٹھے تمام امیدواروں کو باور کرایا گیا کہ ایک آدمی کی زندگی اور اس کے مستقبل کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا اور آپ ایک جج کی طرح ہی اس مقدمے کو سنیں گے۔ یہ آپ پر منحصر ہوگا کہ آپ کتنے خلوص اور لگن سے اس مقدمے کو سنتے اور پھر اس کا فیصلہ سناتے ہیں۔ متوقع جیورر کو بھی بتایا گیا کہ مقدمہ سننے اور فیصلہ دینے کیلیے آپ کو قانون جاننے کی ضرورت نہیں، آپ صرف اپنا کامن سینس استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیں گے اور جج قانون کے مطابق سزا سنائے گا۔

جج نے بتایا کہ اگر منتخب ہونے والا جیورر مقدمے میں شامل فریق یا ان کے گواہوں کا جاننے والا نکلے تو جج کو بتا دے۔ اسی طرح اگر جیورر کا مذہب اسے جیوری میں بیٹھنے سے روکتا ہے تو وہ بھی بتا دے۔ اگر منتخب شدہ جیورر کسی پولیس آفیسر، عدالتی آفیسر یا سرکاری ملازم کا رشتہ دار ہے تو وہ اطلاع کرے تاکہ اسے منتخب نہ کیا جائے۔

جج کے حکم پر عدالت میں حاضر تمام افراد میں سے پہلے مقدمے کیلئے بیس افراد کے نام پرچی سسٹم سے پکارے گئے۔ جس جس کو کوئی مجبوری تھی جج نے اسے ایکسکیوز کردیا اور اس طرح پہلے مرحلے میں آٹھ جیورر منتخب ہوئے۔ ہر جیورر کے بارے میں پہلے دونوں پارٹیوں کے وکلاء سے پوچھا گیا اور پھر جس جس کو کلیئرنس ملی اس سے بائبل پر حلف لیا گیا۔ جس پر وکلاء نے اعتراض کیا انہیں اگلے مقدمے میں چننے کیلئے دوبارہ کورٹ میں بیٹھنے کا حکم میں ملا۔

 ایک چائنیز نے انگریزی کو مادری زبان نہ ہونے کی مجبوری گنوائی اور جج نے اسے چھوڑ دیا۔ اسی طرح کسی نے بیوی کی بیماری کا بتایا، کسی نے خاندان کا واحد کفیل ہونے کی بات کی اور کسی نے طالبعلم  بتایا اور جج نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ اس طرح دو تین مرحلوں میں پہلے مقدمے کیلیے بارہ جیورر اور دو متبادل منتخب کیے گیے۔ متبادل جیورر کو کل بتا دیا جائے گا کہ پہلے بارہ جیورر میں سے کوئی غیرحاضر تو نہیں۔ اگر کوئی بھی غیرحاضر نہ ہوا تو پھر انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔

جج کے پوچھنے پر دونوں طرف کے وکیلوں نے بتایا کہ یہ مقدمہ زیادہ سے زیادہ چار دن تک چلے گا۔ اس مقدمے میں ایک آدمی نے ایک عورت کیخلاف مقدمہ درج کرایا ہوا ہے کہ عورت نے اسے پیٹا۔ آج یہ پتہ نہ چل سکا کہ کالی عورت کا مدعی کیساتھ کیا رشتہ ہے۔

پھر جیورر کو دوسرے کمرے میں بٹھادیا گیا تاکہ ان کے فون نمبر نوٹ کئے جاسکیں۔ وہ اسلیے کہ اگر جج مقدمے کی کاروائی موخر کرتا ہے تو جیورر کو بروقت اطلاع دی جاسکے۔ آخر میں جیورر کو کل دس بجے حاضر ہونے کا وعدہ لے کر کورٹ آفیسر کورٹ سے باہر چھوڑ گیا۔

باہر چھوڑنے سے پہلے کورٹ آفیسر نے سب کو بتایا کہ جیورر کو اس عوامی خدمت کے بدلے میں کچھ نہیں ملے گا۔ جیورر کھانا بھی اپنا کھائیں گے البتہ ان کی گاڑیوں کی پارکنگ کیلے پاس انہیں کل دیے جائیں گے۔

دوسری اور آخری قسط اس لنک “کینیڈین امریکن جیوری نظام – قسط اول” پر پڑھیں۔