پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے پوش علاقوں اور شاہراہوں کو چھوڑ کر باقی علاقوں نے اگر ترقی کی ہے تو وہ ماحول کی آلودگی میں کی ہے۔ آپ قصبوں اور شہروں کے اندرون محلہ پیدل چلیں تو چند قدم کے بعد ہی آپ کے منہ کو مٹي کا ذائقہ محسوس ہونے لگے گا اور آپ کی سانس کی نالی میں مٹی جانے لگے گی۔ گلے کو صاف کرنے کیلیے آپ کو ایک آدھ دفعہ کھنکارنا پڑے گا۔ سڑکوں پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلیے پولیس مین منہ پر فلٹر چڑھائے ایسے کھڑا نظر آتا ہے جیسے کسی کیمیکل لیباريٹری میں کام کررہا ہو۔ اس ٹریفک نے لوگوں کا چھوٹی چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں چلنا دشوارکر دیا ہے۔ ہر لمحے کوئی نہ کوئی گاڑی یا موٹرسائیکل آپ کے پاس سے گرد اڑاتی ہوئی گزرتی ہے جو آپ کے کپڑوں اور منہ پر دھول کی مقدار مزید بڑھا دیتی ہے۔

ایک وقت تھا ٹریفک کم ہوتی تھی اور لوگ بھی کم ہوتے تھے۔ صبح صبح جمعدار شہروں قصبوں کی گلیوں میں نکل پڑتے اور گلیوں کو جھاڑو سے باقاعدہ صاف کرتے۔ ان کے ساتھ ایک ماشکی بھی ہوتا جو ساتھ ساتھ پانی چھڑک کر مٹی اور دھول کو بٹھاتا جاتا۔  نالیوں کی صفائی کا عملہ نالیاں صاف کرتا اور نالیوں کے کناروں کو دھونے کیلیے ان کیساتھ بھی ماشکی ہوتا۔ قصبوں میں اس وقت چنگ چی کا رواج نہیں تھا اور صرف ٹانگے چلتے تھے۔ ٹانگے والے کا گھوڑا کبھی کبھار سڑک پر ہی فارغ ہوجاتا تھا مگر چنگ چی کی طرح دھواں اور غبار ساتھ لیکر نہیں چلتا تھا۔

پرانے وقتوں میں شہروں اور قصبوں کے پارک بھی صاف ستھرے ہوتے تھے۔ بلکہ سکول بھی سیرگاہ کا کام دیتے تھے۔ ہم صبح صبح نماز کے بعد صبح کی صیر کیلیے اگر کسی سکول میں چلے جاتے تو موتیے اور گلاب کی خوشبو استقبال کیا کرتی تھی۔ اب انہی سکولوں کے گراؤنڈ مٹی اور دھول میں اٹے ہوئے ہیں اور موتیے، گلاب کے پودے معدوم ہوچکے ہیں۔

 دوسری طرف ہماری چھاؤنیاں صفائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کسی چھاؤنی میں آپ کو مٹی اور دھول نظر نہیں آئے گی۔ سڑکیں صاف شفاف اور درخت بھی نکھرے نکھرے نظر آئیں گے۔ اگر جنرل مشرف چاہتے تو چھاؤنیوں کی مثال کو سامنے رکھ کر ملک کو صاف ستھرا رکھنے کے منصوبے کو شروع کرسکتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو چھاؤنیوں میں جاری نظام کو سارے قصبوں اور شہروں میں لاگو کرسکتے تھے۔ سیدھی سی بات ہے کہ چھاؤنیوں میں بھی انسان ہی رہتے ہیں اور اگر فوجی اپنی جگہوں کو صاف رکھ سکتے ہیں تو پھر سول آدمی کیوں نہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سول محکموں میں تعینات موجودہ اور ریٹائرڈ فوجی افسروں نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔  صدر صاحب کوبھی  اس بات کی کوئی پرواہ نہیں رہی کہ ماحول کی گندگی سے ہم لوگ ہیپاٹائٹس سی جیسے مرض کا شکار ہوکر مررہے ہیں۔ وہ تو پینے کے صاف پانی کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے مٹی اور دھول کا کیا خاتمہ کرتے۔ ان کا پریذیڈنٹ ہاؤس اور ملڑی ہاؤس صاف ہے۔ وہ کیا جانیں کہ عام آدمی دھول اور دھوئیں سے کس قدر تکلیف میں مبتلا ہے۔

دراصل ہم پاکستانیوں کی اکثریت بھی صفائی پسند نہیں ہے۔ اگر ہم صفائی پسند ہوتے تو اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے۔ کوڑے اور گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ نہ لگاتے اور اپنا فضلہ نالیوں میں نہ بہاتے۔ دوسرے ہم ان لوگوں کو حکمران چنتے جو گلی محلے میں صفائی کراتے اور صاف پانی کی ترسیل آسان بناتے۔