THIS DOMAIN IS FOR SALE
THIS DOMAIN IS FOR SALE
ایک بلین سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد، درجنوں مسلمان ملک، درجنوں مسلمان حکمران اور ان کی ایک اسلامی تنظیم مگر یہ سب لوگ صرف عید ایک دن منانے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ سیدھی سی بات ہے مکہ مدینہ میں جس دن عید ہو اس دن سارے مسلمان عید منائیں۔ جس جس ملک میں صبح ہوتی جائے لوگ عید مناتے جائیں۔
ہم مسلمان دنیا جہان کی خرافات میں پڑے ہوئے ہیں مگر عید کے چاند پر ہمیں اسلام کی یاد آ جاتی ہے اور وہ بھی تفرقہ ڈالنے کیلیے۔
کم از کم پاکستانی حکمران اور افواج پاکستان ملکر علمائے کرام کی ایک میٹنگ بلائیں اور چاند کا مسئلہ ہمیشہ کیلیے حل کر لیں۔ اگر علمائے کرام مسجد میں سپیکر کے استعمال پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور تو پھر عید کے چاند پر بھی حکومت کی بات مان لیں گے اگر حکومت مخلص ہو تو۔
عمران خان سے امیدیں لگانے والوں کے حوصلے اب بھی پست نہیں ہوئے مگر لگتا یہی ہے کہ عمران خان بھی عام پاکستانی حکمرانوں کی ڈگر پر چل پڑے ہیں وگرنہ وہ عید کے چاند کا مسئلہ تو حل کرا سکتے تھے۔
ہماری فوج نے جہاں کئی سارے غیرسیاسی فیصلے ڈنڈے کے زور پر کیے وہ عید کے چاند کا مسئلہ چٹکی بچا کر حل کر سکتے ہیں اگر چاہیں تو۔
ہمارے بہت سے مسائل عالمی طاقتوں کے بھی پیدا کردہ ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ مسلمان متحد ہو کر ان کیلیے مسائل پیدا کریں۔ اسلیے انہیوں نےہر ممکن کوشش کر رکھی ہے کہ مسلمانوں کو کئی طریقوں سے تقسیم کر کے رکھا جائے اور وہ ابھی تک اس میں کامیاب بھی ہیں۔
ڈکٹیٹروں نے سب زیادہ ملک کو نقصان پہنچایا۔ اگر ملک میں جمہوریت رہتی تو آج پاکستان ترقی یافتہ ہوتا۔
ایوب نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی اور جنرل یحی نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا۔
ضیالحق نے مغربی دنیا کی جنگ لڑی، ملک میں خود کش حملوں اور کلاشنکوف کا کلچر متعارف کرایا۔ لسانی بنیادوں پر ایم کیو ایم بننے دیا۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے چکر میں گیارہ سال مسلمانوں کے برباد کر گیا۔
مشرف نے افغانستان کی جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کرایا اور ملک کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری دور بھی سو فیص ٹھیک نہیں تھے مگر ڈکٹیٹرشپ سے پھر بھی اچھے کہے جا سکتے ہیں۔
کچھ عرصے سے ہمارا بلاگ خراب ہو گیا اور اس پر اردو کی بجائے اوٹ پٹانگ شکلیں نظرآنے لگیں۔ بلال صاحب نے مدد کرنے کی حامی بھری، ابھی ان کی مدد درمیان میں ہی تھی کہ ہم نے سوچا فری لانسر ڈاٹ کام
پر پروجیکٹ بنا کر مدد لی جائے۔ ایک انڈین ورڈپریس کے ماہر نے پچیس ڈالر کے عوض ہماری سائٹ ٹھیک کر دی۔ ہم نے اسے پوچھا کہ کیسے ویب سائٹ ٹھیک کی تو اس نے گول مول سا جواب دے دیا مگر ٹھیک طرح سے نہیں بتایا۔
اب ہم سوچ رہے دوبارہ سے بلاگ لکھنا شروع کر دیں۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے جب لیڈروں پر عتاب کا خطرہ منڈلایا تو انہوں نے قائد کو ہی چھوڑ دیا۔ اور اسی گارنٹی پر انہیں رہائی ملی۔ بعد میں الطاف حسین نے معافی مانگی مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے خیال میں رینجرز کو ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کو اس ضمانت پر چھوڑنا چاہیے تھا کہ وہ عامر لیاقت کی طرح سیاست سے توبہ کر لیں گے۔
ہم نے تو ہمیشہ عمومی طور پر ایم کیو ایم اور خصوصی طور پر الطاف حسین پر تنقید کی ہے اور اس کی وجہ کراچی کے زمینی حالات تھے۔ ایم کیو ایم کیخلاف جب آپریشن ہوا تو انہوں نے آپریشن میں شامل تمام پولیس والے قتل کر دیے۔ انہوں نے اپنے دو بڑے لیڈر اور کئی کارکنان قتل کیے۔
انہوں نے چیف جسٹس کی ریلی کو ناکام بنانے کیلیے قتلِ عام کیا۔
ایم کیو ایم حکومت میں رہتے ہوئے اسی طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتی رہی مگر ہمارے حکمرانوں کی خود غرضی اور بے حسی نے ایم کیو ایم کے سانڈھ کو کھلا چھوڑے رکھا۔ اب جب کراچی کے حالات پچھلے کئی سالوں سے کنٹرول نہیں ہو رہے تھے تو فوج کے پاس ایم کیو ایم کیخلاف کاروائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ غلطی قائد الطاف اور ایم کیو ایم کے دوسرے لیڈران کی جنہوں نے نوشتہء دیوار نہ پڑھا اور اول فول بکتے رہے یہ سوچ کر کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔
الطاف حسین کو اب بھی اگر عقل آ جائے تو اس سے بڑے نقصان سے بھی بچ جائیں گے وگرنہ ان کی کئی دہائیوں کی محنت خاک میں ملتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کو آزاد ہوئے انہتر سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی ایسا سال نہیں دیکھا جس میں پاکستان نے ترقی کی ہو۔ نواز شریف برادران کی موجودہ اور زرداری کی سابقہ حکومتوں کو ہی لے ہیں مجال ہے کسی نے بڑی فیکٹری لگانے کی کوشش بھی کی ہو۔ زرداری نے تو ملک کیلیے کیا بھی کچھ نہیں اور بیرونی قرضوں کے ڈھیر لگا دیے۔ یہی حال میاں برادران کی حکومت کا ہے۔ وہ کام کئے جا رہے ہیں جن میں کمیشن بہت زیادہ ہے۔ صنعتکاری کیلیے بجلی گیس بہت ضروری ہوتی ہے مگر دونوں چیزوں کی لوڈشیڈنگ کوئی حکومت ابھی تک کم نہیں کر سکی۔ اورنج ٹرین اور بسیں چلانے کی بجائے اچھا ہوتا اگر ملک میں صنعتکاری کو فروغ دیا جاتا۔
چودہ اگست کو جوش و خروش سے منانے کا آغاز ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاع نے کیا تھا۔ میڈیا کی وجہ سے پچھلے چند سالوں سے یومِ آزادی جوش و خروش سے منانے کا رواج عام ہو چکا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس روز کم از کم پاکستانی ایک دوسرے کیساتھ ایمانداری سے پیش آتے۔
کاروبار ایمانداری سے کرتے۔
پولیس اور جج صاحبان کچھ ایسا کر کے دکھاتے کہ لوگوں کو محسوس ہوتا کہ وہ آزاد ہیں۔
مگر ایسا ہو نہیں سکا۔
پہلے انگریز ہم پر براہِ راست حکومت کرتے تھے اب وہ مقامی سیاستدانوں کی شکل میں ہم پر مسلط ہیں۔
انہوں نے پاکستان کو قرضوں میں ایسا جکڑا ہے کہ اب ہمارا بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بناتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سود کی شکل میں بیرونِ ملک منتقل ہو جاتا ہے۔
رہی سہی کسر فوج کا حصہ نکال دیتا ہے اور طاقتور فوج اتنی کہ وہ اپنے بجٹ کا آڈٹ بھی نہیں ہونے دیتی۔
اگر آزادی کے دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو ہمارے ملک میں فوج، حکمران اور بیروکریسی آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ بھی عام پبلک کو غلام بنا کر۔
ابھی ہم آزاد نہیں ہیں
ابھی ہم شاد نہیں ہیں
ابھی ہم نے ووٹ کی طاقت استعمال کی نہیں ہے
ابھی ہم نے جمہوری آزادی بحال کی نہیں ہے
ابھی ہم نے ڈھنگ سیکھا نہیں ہے احستاب کرنے کا
سوچا نہیں ہے حکمرانوں کیساتھ اپنا حساب کرنے کا
ابھی ہم آزاد نہیں ہیں
ایک بیٹی نے لکھا “مجھے لوگوں کی برائی سے خوف نہیں آتا کیوںکہ اس میں خود کو بخوبی بچانا جانتی ہیں لیکن مجھے ان کی قدآور نیکیوں سے خوف آتا ہے جن کے سائے میں کھڑے ہو کر وہ اتنے مغرور ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا سوائے اپنے اور اپنے نیک عمل کے”۔
اس کے اسی طرح کے جلے کٹے اقوالِ زریں پڑھ کر سوچا اسے کچھ سمجھاؤں۔
بیٹی غصہ نہ کرنا اور تحمل سے میری بات سننا۔ تمہارے جلے کٹے اقوال کے جواب میں کوئی بھی نہیں بول رہا۔ لیکن میں ہمت کرکے کچھ کہنے لگا ہوں۔ امید ہے ایک تجربہ کار بزرگ کی باتوں پر دھیان دو گی اور بحث نہیں کرو گی۔
ا۔ کسی کیساتھ بھی بدمزگی ہو جائے تو ہمیشہ دوسروں کو الزام دینے کی بجائے خود کا محاسبہ کرو۔ دوسروں کو سدھارنے کی بجائے خود کو سدھارنا بہت آسان ہے۔
ب – جوش کی بجائے ہمیشہ ہوش سے کام لینے کی عادت ڈالو۔ پتہ ہے غصے میں آدمی جو بھی بولتا ہے اس کا نقصان ہی ہوتا ہے۔
ت – دوسروں سے توقع رکھو مگر خواہش پوری نہ ہونے پر دوسروں کو الزام مت دو بلکہ کوشش کرو کہ دوبارہ ایسی فرمائش کرو ہی نہیں جس کی وجہ سے دوسروں سے نہ سننی پڑے
ازدواجی زندگی کے چند اصول جو زندگی گلزار بنا دیں گے۔
ث – ہمیشہ اپنے جیون ساتھی کیلیے نرم گوشہ رکھو۔ اگر وہ غصے میں بولے تو خاموش ہو جاؤ اور جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو پیار سے بات کرو
ج – اپنے ازدواجی مسائل کسی کیساتھ شیئر مت کرو
چ۔ اپنے جیون ساتھی کیلیے قربانی کا جذبہ پیدا کرو
ح۔ ایک دوسرے کی عادتوں کیمطابق جیون ساتھی کو بدلنے کی بجائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو۔
خ۔ جتنے قول لکھے ہیں ان پر اگر خود عمل کرو گی تو زندگی زیادہ آسان رہے گی۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں، سستیوں، کجیوں کو چھوڑ کر دوسروں سے توقعات باندھ لیتے ہیں جب وہ ہماری توقعات پر پورے نہیں اترتے تو پھر ہم ایسے ہی قول لکھنے شروع کر دیتے ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ خود کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں، سستیوں اور کجیوں کا محاسبہ کریں۔
پھر لکھ رہا ہوں کہ ان باتوں کو جھوٹ ثابت کرنے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرو اور جہاں تک ہو سکے عمل کرنا پھر دیکھنا زندگی آسان گزرے گی۔
ایدھی مرحوم نے کوئی ساٹھ سال انسانی خدمت کی۔ مگر مجال ہے جو حکومت نے ان کے ایک اصول کو بھی اپنایا ہو۔ انہوں نے کبھی قرضہ نہیں لیا۔ بھیک اور چندہ مانگ کر ایدھی فاؤنڈیشن کے اخراجات پورے کئے۔
اگر ہماری حکومتیں مخلص ہوتیں تو وہ ایدھی صاحب کو کم از کم زکوٰۃ کی وزارت ضرور دیتیں۔ اس کے برعکس ہماری حکومتوں نے ایسے لوگوں کو وزارت دی جو زکوٰۃ کی رقم کھانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔
ایدھی صاحب نے بڑی کامیابی سے ایدھی فاؤنڈیشن کا بہت بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔ ہماری حکومتیں اگر چاہتیں تو وہ ایدھی صاحب کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم از کم پولیس، پٹوارخانے اور عدلیہ میں بہتری لا سکتیں تھیں۔ بلکہ اگر وہ کوئی ایک محکمہ ہی ایدھی صاحب کے حوالے کر دیتیں تو وہ پاکستان سے کرپشن کو کم از کم ختم کر سکتی تھی۔
اب کیا ہو گا۔ ہمارے وزیر ایدھی صاحب کے جنازے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے مگر مجال ہے جو ایک پائی بھی ایدھی فاؤنڈیشن کو دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایدھی صاحب کی یاد میں ان کی برسی پر کم از کم پانچ ارب روپیہ اکٹھا کر نے کا منصوبہ شروع کرے۔ وہ بھی ایسے ہی جیسے ایدھی صاحب خود جھولی پھیلا کر اکٹھا کیا کرتے تھے۔
جب سے میڈیا نے ترقی کی ہے اس نے اردو کو کافی نقصانات پہنچائے ہیں۔ ایک اردو میں انگریزی الفاظ کا اضافہ اور دوسرے انگریزی کے مخفف الفاظ کا استعمال بڑے نقصانات ہیں۔ کبھی کبھی تو عام آدمی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جو مخفف زبانِ زدِ عام ہو چکے ہیں وہ کن الفاظ کا مخفف ہیں۔ ٹی او آر بھی انہی مخفف الفاظ میں سے ایک ہیں۔
پانامہ لیکس کے بعد اپوزیشن نے خوب شور مچایا اور کوشش کی کہ کسی طرح نوازشریف کی حکومت کا تختہ کر دیا جائے مگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ن، مولانا فضل الرحمان اور پی پی پی کی ملی بھگت سے پانامہ لیکس کا خطرہ ٹالنے کیلیے ٹی او آر بنانے کیلیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود ٹی او آر پر اپوزیشن اور حکومت میں اتفاق نہیں ہو سکااور یہی حکومت کا مطمع نظر تھا۔
عمران خان کو ایک دفعہ پھر اپوزیشن نے دھوبی پٹکا مار کر چت کر دیا ہے۔ عوام کی بے حسی اور اپوزیشن کی نااتفاقی سے ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی اور اگلی حکومت کس کو ملے گی اس کا انحصار خفیہ طاقتوں پر ہو گا۔ تب تک عمران خان شور مچاتے رہیں گے اور میاں برادران حکمرانی کے فائدے سمیٹتے رہیں گے۔
عظیم باکسر محمدعلی اس جمعہ کو وفات پا گئے۔
یہ 1970 کی دھائی کی بات ہے جب ٹی وی نیا نیا ہمارے محلے کے ایک دو گھروں میں آیا تھا وہ بھی دبئی میں کام کرنے والے لائے تھے۔ ان دنوں باکسر محمد علی کا پورے ملک میں چرچا تھا اور لوگ ان کا ہر میچ ریڈیو پر سنتے اور ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ ہم نے ان کے جو فریزیئر اور جارج فورمین کے دونوں میچ ٹی وی پر براہِ راست دیکھے۔ ہمیں یاد ہے اس وقت ان کے میچوں کا ایک ایک راؤنڈ ماحول میں کتنا تناؤ پیدا کر رہا ہوتا تھا۔ جب محمد علی جارج فورمین سے رنگ کیساتھ لگ کر مار کھا رہے تھے تو ہم سب پریشان بیٹھے تھے لیکن جونہی انہوں نے فورمین کو ناک آؤٹ کیا ان کی مار کھانے کی چال پر واہ واہ کرنے لگے۔
ہمیں ان کی آخری فائٹیں نہیں بھولتیں جب انہوں نے اپنے مخالفین سے مار کھائی۔ ہم سب میچ دیکھنے والوں کا یکطرفہ فیصلہ تھا کہ انہیں یہ فائٹیں نہیں لڑنی چاہیے تھیں۔ کہتے انہی میچوں کی وجہ سے انہیں پارکنسز کی بیماری لاحق ہو گئی۔
محمد علی نے باکسنگ کے علاوہ بھی لوگوں کی زندگیوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان کی ویتنام جنگ کی مخالفت ہو یا پھر کالوں کے حقوق کیلیے جنگ، انہوں نے اپنی زندگی کے عروج پر اپنے کیرئیر اور دولت کو ٹھکرا کر عام آدمی کی فلاح کیلیے بہت کچھ کیا۔
ہالی وڈ میں واک آف فیم میں تمام مشہور شخصیات کے نام زمین پر ہیں، سوائے محمد علی کے، جن کا نام دیوار پر لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا “میرا نام پیغمبر اسلام کا نام ہے اور یہ ناممکن ہے کہ میں اس بات کی اجازت دوں کہ اس نام پر لوگ چلیں”۔
امریکہ کے سابق پروفیشنل باکسر جارج فورمین نے محمد علی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’محمد علی آپ کو ان سے پیار کرنے پر مجبور کرتے تھے۔‘
جارج فورمین کا مزید کہنا تھا: ’ وہ ایک بہترین شخص تھے، آپ باکسنگ کو بھول جائیں، وہ ٹی وی اور میڈیا پر آنے والے دنیا کی بہترین شخصیات میں سے ایک تھے’۔
پاکستان کرکٹ کے چیئرمین شہریار خاں ایک ریٹائرڈ کیریئر ڈپلومیٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے زوال کی وجہ انپڑھ کرکٹر ہیں۔ حالانکہ کرکٹ کے زوال کی اصل وجہ ان جیسے لوگ ہیں جن کا کرکٹ کی سوجھ بوجھ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ جس شعبے کا چئیرمین اپنے شعبے کی تکنیکی مہارتوں سے نابلد ہو، جس شعبے کا کرتا دھرتا ایک صحافی ہو وہ شعبہ زوال پذیر نہیں ہو گا تو کیا ہوگا۔ نجم سیٹھی جیسا خودغرض جب کسی شعبے کا انچارج ہو گا تو بے غیرتی وہاں ضرور پروان چڑھے گی۔
اگر تعلیم کی کمی کھیل میں حائل ہوتی تو نامی گرامی پہلوان اور باکسر کبھی پیدا نہ ہوتے۔
جب شہریار یہ کہتے ہیں کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی اکثریت گلی محلے میں کھیل کر آگے آئی ہے تو وہ اپنی ہی حکومت کے منہ پر تمانچہ مار رہے ہیں کیونکہ انہی کی حکومت نے کھلاڑیوں کو صہولتیں مہیا نہیں کیں۔
ہمارے والدین کوئی پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا کہ بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سیدھے رستے پر چلے اور کامیاب ہوئے۔ یعنی اگر کسی بھی شخص کو آپ نے سنوارنا ہے تو پھر اس کے ملازمین کی تربیت اچھی کیجئے اور انہیں اچھا ماحول دیجئے پھر دیکھئے ان کی صلاحیتیں کیسے نکھر کر سامنے آتی ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کالے انگریزوں نے انگریزی کو ہی تعلیم کا معیار مقرر کر دیا ہے۔ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو پھر ہی آپ کرکٹ کے کپتان بنیں گے۔ یہ لیڈرشپ کا اصول کھیل میں نہیں چلتا۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو کپتان کو انگریزی زبان کی تعلیم دلا سکتے ہیں مگر انگریزی نہ آنے کی وجہ سے اسے کپتان نہ بنانا سراسر جاہلیت ہے جو ہمارے موجودہ کرکٹ بورڈ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
میاں برادران کوئی پینتیس سال سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ ان پینتیس سالوں کا حساب اگر لگایا جائے تو صرف اگر تبدیلی آئی ہے تو ان کی دولت میں۔ ناں ملک میں انہوں نے کوئی بڑی انڈسٹری لگائی، ناں صحت اور تعلیم کو بہتر بنایا، ناں پٹواری اور تھانے کا کلچر تبدیل کیا اور ناں لوڈشیڈنگ ختم کر پائے۔ کیوں؟
کیونکہ وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی اکثریت کی طرح غیرمحبِ وطن اور خودغرض انسان ہیں۔ جنہیں صرف یہ غرض ہے کہ ان کا کاروبار کیسے مزید پھلے پھولے چاہے اس کیلیے انہیں غیرت ہی کیوں ناں بیچنی پڑے۔ آپ کا کیا خیال ہے مطلب کیلیے کیا یہ جنریلوں کے آگے نہیں لیٹتے ہوں گے۔ کیا یہ بھی اب زرداری کی مفاہمت والی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ کیا انہوں نے بھی اپنے خاندان کو ہر دھندے میں داخل نہیں کیا ہے؟ یہ سب باتیں درست مگر موجودہ دور میں میاں برادران کا طریقہ واردات عام ہو چکا ہے۔ سیاستدان اب مل کر حکومت کرتے ہیں اور مل کر کھاتے ہیں، یہی وجہ ہے پچھلے کئی سالوں سے صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی حکومت ہوتی ہے اور وفاق میں پارٹی کی اکثریت کے باوجود حکومتی پارٹی کئی پارٹیوں سے اتحاد کئے رکھتی ہے۔ اس خباثت کی وجہ سے اب ملک میں حزبِ اختلاف کا وجود ناپید ہو چکا ہے۔ تاریخ اس حکومتی طریقے کو زرداری مفاہمتی سیاست کے نام سے یار رکھے گی۔ پہلے ہر غلط طور طریقے والے شخص کو سیاسی کہا جاتا تھا اب زرداری کہا جایا کرے گا۔
رازِ حیات میں لکھتے ہیں کہ قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑتی ہے۔ قوم کا معامہ وہی ہے جو مشین کا ہوتا ہے۔ مشین اسی وقت صیحح کام کرتی ہے جب ک اس کے پرشے صیحح ہوں۔ قوم اس وقت درست رہتی ہے جب کہ اس کے افراز اپنی جگہ پر درست کام کر رہے ہوں۔ مشین بنانا یہ ہے کہ پرزے بنائے جائیں۔ اسی طرح قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔ فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پرزے تیار کیے بغیر مشین کھ…ڑی کرنا۔
مگر ہم اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ مشین جتنی بھی پائیدار ہو اس کے پرزوں کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ وہ ہمیشہ ٹھیک کام کریں گے۔ تبھی تو کامیاب کارخانہ دار مشین کی ماہانہ یا سالانہ دیکھ بھال کیلیے مستری بھرتی کرتا ہے۔ یہی تجربہ کار مستری مشین کی خرابی بھی دور کرتا ہے۔ مشین کی کامیاب کارکردگی میں مالک کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی حال اقوام کا ہے۔ افراد کو ٹھیک رکھنے کیلیے نیک نیت اور تجربہ کار مقننہ اور انتظامیہ کا ہونا ضروری ہے۔
تین سال قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو اغوا کیا گیا اور پیرزادوں اور حکمرانوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا مگر علی کو رہا نہ کروا سکے۔ یوسف رضا گیلانی شروع سے حکومت اور امریکہ کو مدد کیلیے پکارتے رہے مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ پچھلے دنوں یوسف رضا گیلانی نے خود کہا کہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے اغواکاروں سے علی کی رہائی کی بات چیت چل رہی ہے۔
اس ہفتے خبر آئی کہ نیٹو اور افغان افواج نے کاروائی کرتے ہوئے علی کو رہا کروا لیا ہے۔ یہ کونسی کاروائی ہوئی جس میں اغواکار تو مارے گئے مگر علی کو ایک خراش تک نہیں آئی۔ ہمیں تو دال میں ضرور کچھ کالا لگتا ہے۔ ہمارا پکار خیال یہ ہے کہ علی کو اسی طرح تاوان دے کر رہا کروایا گیا ہے جس طرح شہباز تاثیر کو رہا کروایا گیا ہو گا۔
صدقے جائیے ان حالات کے جن میں اغواکار ہماری حکومت اور فوج سے بھی طاقتور ہیں۔ ہم وہ طاقتور لوگ ہیں جو چھوٹو گینگ کو صرف ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکتے ہیں مگر بڑے اغواکاروں کے گھر تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کبھی کبھی آدمی یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس دنیا کا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ غریب کی عزت اچھالی جا رہی ہے، غنڈہ گردی عام ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں قانون اور پولیس نام کے محکمے صرف کمزوروں اور غریبوں کیلیے بنائے گئے ہیں۔
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
« Sep | ||||||
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 |
8 | 9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 |
15 | 16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 |
22 | 23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 |
29 | 30 | 31 |