جب سے پاکستان بنا ہے عوام گوروں کے بنائے ہوئے طریقوں سے تربیت یافتہ انتظامیہ کے استحصال کا شکار رہے ہیں۔ پہلے اس انتظامیہ کو بیوروکریسی کا نام دیا گیا جس میں پولیس انتظامیہ سے لے کر وزارتوں کے سیکریٹری شامل ہوتے تھے۔ اب کچھ عرصے سے بیوروکریسی کے علاوہ کچھ ایسی مزید خفیہ قوتیں عوامی استحصال میں شامل ہوگئی ہیں۔ بیوروکریسی اور ان خفیہ قوتوں کے اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اب ہرطرف میڈیا اور جمہوری حکومت کے ارکان یہی واویلا مچائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مکمل جمہوریت بحال نہیں ہونے دے رہی۔

 ابھی تک کسی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی تعریف بیان نہیں کی اور جب بھی کسی پروگرام میں ان چھپی ہوئی قوتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو سب کا جواب یہی ہوتا ہے “آپ خود جانتےہیں وہ کون لوگ ہیں”

ڈاکٹرقدیر  کی رہائی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم تک بے بس نظر آتے ہیں اور انہی قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سے پوچھیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو نظربند کررکھا ہے۔

اسی طرح ججوں کی بحالی میں یہی اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ قرار دی جارہی ہے۔ لوگ تو غائب شدہ پاکستانیوں کا بھی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ہی قرار دے رہے ہیں۔ لال مسجد کے مسئلے کے پرامن حل کی ناکامی کا بھی اسٹیبلشمنٹ کو قصوروار ٹھرایا جاتا ہے۔

جس طرح کے اشارے ہو رہے ہیں اس سے اسٹیبلشمنٹ میں جو قوتیں شامل ہیں ان میں پولیس انتظامیہ، سیکريٹری حضرات کیساتھ ساتھ فوج بھی شامل لگتی ہے۔ ان سب کی ڈور اس وقت غیرملکی طاقتوں کے ہاتھ ميں  ہے جو انہیں پہلے ڈرا دھمکا کر کام لیتی رہیں اور اب مالی لالچ دے کر ملکی مفادات کے خلاف کام لے رہی ہیں۔ تبھی تو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی پر ایک ارب ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان ہوا ہے۔

دراصل بات وہی ہےجب تک اسٹیبلشمنٹ میں قومیت اجاگر نہیں ہوتی اور وہ بکنے کو بے غیرتی نہیں سمجھتی تب تک غیرملکی طاقتیں اس کے ذریعے غریبوں کا استحصال کرتی رہیں گی۔

اسٹیبلشمنٹ کو لگام دینے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہمیں غیرملکی طاقتوں نے ہی بتایا ہے۔ یعنی جس طرح غیروں کے کہنے پر ہم نے اپنے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی ہے اسی طرح ہم قومی مفاد میں اسٹیبلشمنٹ کی تربیت کے غیروں کے طریقے بدل سکتے ہیں۔ ہم اس ٹریننگ سے وہ سارا مواد جس سے اسٹیبلشمنٹ میں نخوت پیدا ہوتی ہو اسی طرح نکال دیں جس طرح غیروں نے جہاد کو ہمارے تعلیمی نصاب سے نکلوایا ہے۔ ہم ان کی ٹریننگ ميں عوامی خدمت کو اسی طرح شامل کردیں جس طرح غیروں کے کہنے پر ہم نے تعلیمی نصاب میں مذہبی رواداری کو شامل کیا ہے۔

لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یعنی عوامی فلاح کے کاموں کیلیے اسٹیبلشمنٹ کو سیدھا کرنے کی جرات کون کرے گا۔ فی الحال تو آوے کا آوے ہی غیروں کی جھولی ميں بیٹھا ہوا ہے۔ اس طرح کے حالات ميں عوامی انقلاب ہی کارگر ثابت ہوگا اور یہ انقلاب تب آئے گا جب عوام روٹی پانی کو ترسنے لگیں گے یا پھر ان کا شعور جاگ جائے گا۔ تب تک آرام سے تماشا دیکھتے رہئے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہئے۔