ڈاکٹرشاہد مسعود نے 2001 میں ڈاکٹری کے پیشے کو لات ماری اور الیکڑانک میڈیا کو جوائن کرلیا۔ اب یہ کیسے ہوا یہ ہمیں معلوم نہیں لیکن اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی محنت سے الیکٹرانک میڈیا میں تلعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے وہ شہرت پائی کہ بڑے بڑے جغادری کالم نگاروں اور اخبارنویسوں کو پیچھےچھوڑ گئے۔اب ڈاکٹر صاحب نے پی ٹی وی کے چیئرمین اور ایم ڈی کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور شاید اپنی بیباکی کو قربان کرتے ہوئے سرکار کی چھتری کے نیچے بیٹھ گئے ہیں۔

ڈاکٹرشاہد مسعود کی بیباکی نے انہیں دوسروں سے ممتاز کر دیا۔ ان کا پروگرام میرے مطابق اس بے باکی کا عروج تھا۔ انہوں نے حکومت کے غلط اقدامات کی نہ صرف بھرپور مخالفت کی بلکہ ان غلط اقدامات کے ناقدین کو ٹی وی سکرین پر پیش بھی کیا۔ ان کی اس بیباکی پر پہلے صدر مشرف نے پچھلے سال پابندی لگائی اور اب موجودہ سول حکومت پلس جنرل مشرف پھر ان کے پروگرام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی ماورائی طاقت نے ڈاکٹر صاحب کے پروگرام کی مخالفت کی ہو جو اس پروگرام کی وجہ سے قومی شعور میں پختگی پیدا کرنے کی مخالف ہو۔

تمام دباؤ کے باوجود جب جیو پر ڈاکٹر صاحب کے بڑبولے پن پر قابو نہ پایا جاسکا تو پھر جمہوری اور آمری  طاقتوں نے ایک اور حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو الیکٹرانک میڈیا کا اب تک سب سے بڑا عہدہ پیش کیا اور ڈاکٹر صاحب نے اسے قبول بھی کر لیا۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب کو عطاالحق قاسمی نے اپنے آج کے کالم “روزن دیوار سے” کی کاپی کچھ روز پہلے ہی پہنچا دی ہو جس میں ترقی پانے کیلیے آج کے اصول وضح کیے گئے ہیں اور سرمد خرم کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اس نے ان اصولوں کی پامالی کرکے اپنے لیے اچھا نہیں کیا۔ اس کالم کو پڑھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سوچا ہو کہ قومی مفاد جائے بھاڑ میں، آؤ ہم بھی دوسروں کی طرح ذاتی مفاد کو اپنا لیں۔

اس طرح آخر کار حکمران کامیاب ہو گئے اور انہوں نے  ڈاکٹر صاحب کے پروگرام میرے مطابق سے جان چھڑا لی۔ جس پروگرام کو بند کرانے کیلیے حکومت نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور بند نہ کراسکی اب اس پروگرام کے میزبان کی قیمت لگا کر اسے بند کرادیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا شاید یہی ٹارگٹ ہو جو انہوں نے سات سال کے کم ترین عرصے میں حاصل کرلیا۔ یعنی شاطر صحافی اور سیاستدان کی طرح حکومت کی ایسی خبر لو کہ وہ شیخ رشید اور ڈاکٹر شیرافگن کو ساتھ ملانے پر مجبور ہو جائے اور ڈاکٹر صاحب کی بیباکی کو عہدے کا لالچ دے کر اپنی عملداری میں لے آئے۔

اب یہاں سے ڈاکٹر شاہد مسعود کا قوم پرستی کا امتحان شروع ہوتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ پی ٹی وی کو “میرے مطابق” کے اصولوں پر چلائیں گے یا پھر “سرکار کے مطابق”۔ اگر ڈاکٹر صاحب پی ٹی وی کو “میرے مطابق” نہ چلا سکے تو پھر ہم سمجھیں گے کہ چند روز قبل سرمد خرم نے احتجاج کر کے جو روایت قائم کی وہ اس نے غلطی کی۔ اگر ڈاکٹر صاحب نے پی ٹی وی کو “میرے مطابق” تبدیل کر لیا تو پھر ہم سمجھیں گے کہ سرمد خرم کی قربانی رنگ لے آئی۔

پاکستان اور مسلمانوں کی پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا امکان ایک فیصد بھی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب بادشاہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس کے سامنے کلمہ حق کہ سکیں گے۔ یہ سچ ہے کہ جب آدمی نمک کھانا شروع کردے اور وہ بھی شاہی تو پھر اسے نمک خواری کرنے نہیں دی جاتی۔

صرف چند ماہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اگر تو پی ٹی وی نے اپنی خو بدل کر اپنے ہی آقاؤں کو سیدھے راستے پر چلانے کی مہم شروع کردی تو پھر ہم سمجھیں گے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے قومی خدمت کیلیے پی ٹی وی کو جوائن کیا اور اگر پی ٹی وی نے وہی پرانی جی حضوریوں جیسی پالیسی برقرار رکھی تو ہم سمجھیں گے کہ جنرل مشرف کی طرح ایک اور پاکستانی نے “سب سے پہلے پاکستان” پر “سب سے پہلے میں” کو ترجیح دے کر اپنی دنیا سنوار لی مگر عاقبت خراب کرلی۔

خدا سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے قابل آدمی کی خوبیوں کو ضائع ہو نے سے بچائے اور انہیں بیرونی جمہوری طاقتوں کی غلامی میں نہ جانے دے۔ یا اللہ ڈاکٹر شاہد مسعود کر اس امتحان سے بھی ایسے ہی سرخرو ہو نے کی ہمت عطا کر جس طرح تو نے انہیں ماضی میں ہر شاہی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کی۔