انضمام الحق ساتویں بار کرکٹ کونسل کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ اس دفعہ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے بال ٹمپرنگ کی اور اس کی پینلٹی کے احتجاج میں ٹیسٹ میچ جاری رکھنے سے انکار کردیا۔

چلیں یہ بھی مان لیں کہ بال ٹمپرنگ کا الزام غلط تھا اور ایمپائر ڈیرل ہئیر نے زیادتی کی مگر اس الزام کے خلاف احتجاج کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ غلط تھا۔ ہوسکتا ہے پاکستان بال ٹمپرنگ کے الزام سےبری ہوجاۓ مگر میچ کے بائیکاٹ کے الزام سے بچنا ناممکن ہے۔

 آج کے دور میں کیپٹن تنہا فیصلے نہیں کرتا بلکہ ٹیم مینیجر اور کوچ بھی ان فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور خاص کر وہ فیصلے جو گراؤنڈ سے باہر ہوتے ہیں وہ کیپٹن اکیلا کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لۓ ہمیں پورا یقین ہے کہ انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ جاری نہ رکھنے کا فیصلہ اکیلے انضمام نے نہیں کیا ہوگا مگر کٹہرے میں صرف اسے کھڑا کیا گیا ہے۔ ظہیر عباس کو لگتا ہے اسی جرم کی پاداش میں مینیجری سے ہٹا دیا گیا ہے مگر کوچ کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اب ان تینوں کے کردہ گناہوں کی سزا صرف انضمام کر بھگتنا پڑ رہی ہے۔

اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جاۓ تو ٹیسٹ میچ جاری نہ رکھ کر پاکستان نے ایک ایشو کو نمایاں کیا جس کی وجہ سے ایمپائر ڈیرل ہئیر کو وقتی طور پر ایمپائرنگ سے روک دیا گیا۔ لیکن ٹیسٹ میچ جاری نہ رکھ کر جو جرم ہم نے کیا ہے اس کی سزا انضمام کو ملے گی کیونکہ کرکٹ کے کسی قانون میں اس طرح کے احتجاج  کی اجازت نہیں ہے۔ انضمام کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا کہ اس نے میچ کا بائیکاٹ کس قانون کی رو سے کیا؟

 دراصل ہم لوگ دماغ کی بجاۓ دل سے کام لینے کے زیادہ عادی ہیں اسی لۓ بعض اوقات ہم سے ایسی حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں جو بعد میں مصیبت بن جاتی ہیں اور اوول ٹیسٹ میچ کا بائیکاٹ بھی انہی غلطیوں میں سے ایک ہے۔

ہونا تو یہ بھی چاہیۓ کہ جہاں انظمام کے خلاف سخت ایکشن لیا جانے والا ہے وہیں ایمپائر کے خلاف بھی اسی طرح کی کاروائی کی جاۓ اور جب تک ایمپائر غلط فیصلے کے الزام سے بری نہ ہو جاۓ اسے ایمپائرنگ نہ کرنے دی جاۓ۔ ہمیں امید ہے کرکٹ کونسل ضرور انصاف کرے گی۔