ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی سرکاری محکمے نے انکوائری کے بعد ملازمین کو سزا سنائی اور بعد میں اسے ختم کر دیا۔ یہی کچھ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پچھلے دنوں کیا۔ پہلے کھلاڑیوں پر ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پابندی لگائی اور جرمانہ کیا اور اب ایک ایک کر کے سزائیں معاف کی جا رہی ہیں۔

ہمارے خیال میں اگر بورڈ نے سزائیں سنا ہی دی تھیں چاہے وہ جائز تھیں یا ناجائز انہیں بحال رکھنا چاہیے تھا۔ اگر سزائیں ختم کی جا رہی ہیں تو پھر سزائیں سنانے والی کمیٹی کی بازپرس ہونی چاہیے اور اسے غلط سزائیں دینے پر سزا ملنی چاہیے۔

اب اگر سزائیں معاف کرنے کا پلان بنا لیا گیا ہے تو پھر تمام کھلاڑیوں کی سزائیں بیک وقت معاف کرنی چاہئیں تھیں۔  شعیبب ملک کی سزا معاف کر کے اسے کرکٹ ٹیم میں شمولیت کیلیے فٹنیس ٹیسٹ کیلیے بھی بلا لیا گیا اور باقی کھلاڑی ابھی تک بورڈ کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ سابق کرکٹرز کی اکثریت کی یہی رائے ہے اور بورڈ کو چاہیے کہ وہ ان کی رائے کا احترام کرے۔

اب اگر شعیب کی سزا ثانیہ مرزا کیساتھ شادی کی وجہ سے معاف ہوئی ہے تو پھر دوسرے کرکٹرز کی سزائیں معاف ہوتی نظر نہیں آتیں کیونکہ یہ شرط وہ کبھی پوری نہیں کر پائیں گے۔

ہمارے خیال میں بورڈ کو شعیب ملک کو تب تک ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہیے جب تک دوسرے کھلاڑیوں کی سزائیں معاف نہ کر دی جائیں اور انہیں کرکٹ ٹيم میں شمولیت کا برابر کا موقع فراہم نہ کر دیا جائے۔