ہمیں ٹیپو کے بارے میں تبھی معلوم ہوا جب اس کی موت کی خبر اخبار میں پڑھی۔ اس خبر کے ساتھ اس کی پوری ہسٹری لکھی ہوئی تھی۔ اس نے دوسرے بدمعاشوں کی طرح پہلوانوں کے اکھاڑے کو استعمال کیا۔ وہ ایک ایسا ہی کردار ہے جیسے پرانے وقتوں میں نظام لوہار، دلا بھٹی، سلطانہ ڈاکو وغیرہ تھے۔ اس کی شاہ عالمی میں حکومت اور پھر اس کی موت پر مارکیٹوں کی بندش سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ ہم اس طرح کے اپنے علاقے کے بدمعاش منظور شاہ کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔
اس کی کہانی میں بھی پولیس اور مقامی سیاستدانوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ پولیس نے اس کے دشمنوں کو ایک ایک کر کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا۔ سیاستدان انتخابات میں کامیابی کیلیے اس کے ڈیرے پر حاضری دیتے رہے۔ اس کے علاقے کے غریب اسے حکمران مانتے تھے اور اسی کے در سے مدد حاصل کرتے تھے۔ حیرانی ہے کہ وہ اب تک ایم این اے یا ایم پی اے کیوں نہ بن سکا۔ عجیب لگتا ہے جب اس طرح کے بدمعاش پولیس کی نگرانی میں اپنا نیٹ ورک چلاتے ہیں اور لمبی عمر پاتے ہیں۔ وہ جس طرح حکومت کے اندر حکومت چلا رہے ہوتے ہیں حکومت کیلیے پریشانی کا باعث نہیں بنتے اور نہ ہی حکومت کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔ کراچی سمیت سارا ملک اس طرح کے بدمعاشوں سے بھرا پڑا ہے اور حکومت ان کے سامنے یا تو بے بس ہے یا پھر خود اس کاروبار میں ملوث ہے۔
24 users commented in " بدمعاش ٹیپو ٹرکاں والا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپاکستان میں آپریشن کلین اپ جاری ہے، سیاست داں اور پولس والے کھرے مٹارہے ہیں!
چھوڑیں جی، مر کھپ گیا، اب کیا ذکر کرنا اس کا۔۔۔
دلا بھٹی کو دوسرے کرداروں سے ملانا مناسب نہیں ہے ۔ دلا بھٹی کی لڑاءی مغل افواج کے خلاف تھی جس کی ٹھوس وجوہات تھیں کیونکہ مغل گورنر نے بادشاہ کے حکم پر اس کے والد کو قتل کیا تھا ۔
بہت خوب یاسر!
میں پوچھ سکتا ہوں کہ اگر یہی کردار کراچی سے تعلق رکھتا ہوتا تب بھی تم یہی تبصرہ کرتے یا گھما پھرا کر اس کا تعلق ایم کیو ایم سے جوڑ دیتے؟
یا کم سے کم کراچی والے تو رگیدے ہی جاتے،کیوں ٹھیک کہا نا مینے؟
ریاض شاہد صاحب اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں حکومت سے لڑنے والے بھی دلا بھٹی کی طرح ہیرو ہیں؟
کیا بدمعاش ٹیپو ٹرکاں والا لاہور کا رحمان ڈکیٹ تھا ؟؟؟؟
ٹاپک کے عنوان سے لگ رہا ہے يہ ميرے چچا محترم خاور کا مضمون ہے آپ بھی ان سے متاثر تو نہيں ہو گئے کہيں
کچھ محترم تبصرہ نگاران کے تبصروں پر “غلام رسول میرا دوست ہے“ صاف لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔۔۔
I just Said that Dulla Bhati had a different shade than sultana Daku and the comparison is not just A robber is different than a rebellious warrior. For local he may be warior and for government a traitor. Will you look into please
Your Urdu text box is not working please put it right before putting the world right
مسٹر عبداللہ
جب تمیں کسی سے بات کرنے کی تمیز نہیںہے تو کسی کو مخاطب کرنے کی ضرورت بھی نہیں، سمجھے
تم لوگوں کے کسی سے اچھے تعلقات بھی ہیں کہ نہیں؟
ہر ایک کی رائے، ہر ایک کی بات سے اختلاف، بدتمیزی
حد ہوتی ہے ہر بات کی۔۔۔۔
میں نے یہ تبصرہ بغیر پنجاب یا سندھ کو سوچے ہوے کیا تھا، لیکن تم نے اس کو بھی وہی رنگ دے دیا۔ تمھارے ذہن میں کچھ اور ہے ہی نہیں۔
یاسر عمران سچی بات کس طرح کاٹتی ہے صاف نظرآرہا ہے!D:
جعفر تم لوگوں کے غلام رسول میرا دشمن ہے ٹائپ مضمون پڑھ پڑھ کر یہ ری ایکشن ہواہے!D:
ریاض شاہد صاحب اچھااااااا
آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں ورنہ آپکا پہلا تبصرہ دوسرے تبصرے کی تردید ہی کررہا ہے!:)
اب اس میں نہ مانوں کا کیا علاج ۔ یعنی ایک ڈاکو اور حکومت کے باغی میں کوءی فرق نہیں ۔
جی میں باغی کی ہی بات کرہا تھا دلا بھٹی بھی ویسا ہی باغی تھا جیسے بلوچستان میں لوگ باغی ہوئے ہیں ویسے میرے خیال میں تو ڈاکو بھی ایک طرح سے حکومت کا باغی ہی ہوتا ہے!
کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے می “ہتھ ہولا“ رکھنا چاہئیے۔
دُلابھٹی کا نام عبداللہ خاں بھٹی تھا۔ دُلا بھٹی کی بغاوت کی وجہ سےمغل فرمارواں جلال الدن محمد اکبر کو اپنا پایہ تخت دہلی سے لاہور منتقل کرنا پڑا اور دُلا بھٹی کی بغاوت کی وجہ سے تقریباََ بیس سال تک لاہور ھندؤستان کا پایہ تخت رہا۔ لاہور کا شاہی قلعہ میں اس بغاوت کی وجہ سے بہت سی تعمیرات فوجی نقطہ نظر سے کی گئیں۔
دلا بھٹی کے باغی علاقے کو دلا پٹی دی وار (دلا بھٹی کی بار) کہا جاتا ہے۔ یہ پنڈی بھٹیاں وسطی پنجاب کا تاریخی قصبہ پنڈی بھٹیاں جو دلے (دلا بھٹی) کی بار کا مرکز رہا ہے۔ پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے مغرب کی طرف قدیم شاہراہ اعظم اور جدید موٹروے پر 107کلو میٹر کے فاصلے پر دریاۓ چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ قصبہ چاروں طرف سے شیخوپورہ، جھنگ، فیصل آباد اور سرگودھا کے اضلاع کے درمیان میں واقع ہے۔ جبکہ خود اس کا ضلعی صدر مقام حافظ آباد اس کے شمال میں 59 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
دلا بھٹی۔ رائے عبداللہ خاں بھٹی مسلم راجپوت قیبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ باپ کا نام رائے فرید خان، ماں کا نام لدھی اور دادا کا نام رائے ساندل خان تھا۔ اس علاقے کو ساندل بار کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ، مشور لوک داستان مرزا صاحباں کے مرکزی کرداروں مرزا صاحباں کا تعلق بھی اسی بار سے تھا۔رائے ساندل بار حافظ آباد سے ملتان تک کے راجپوت قبیلوں کا سربراہ یا سردار تھا۔
دریائے راوی،چناپ، ستلج، کے اس اور اس طرف آباد جٹ اور راجپوتوں کے مسلم قبائل ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں مغلوں، انگریزوں اور سکھوں کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں۔ جس میں کبھی کبھار یہ مرکزی حکومتوں کے لئیے بڑی سر دردی بن جایا کرتے تھے ۔ مگر ایک سیاسی مرکز نہ ہونے کی وجہ سے صدیوں پہ محیط یہ لڑائیاں کامیاب نہیں ہوئیں مگر اپنے پیچھے بہت سے ایسے تاریخی کردار چھوڑ گئیں ہیں۔ کردار جو جانتے تھے کہ اس رستے پہ ایک دن موت انھیں گلے لگا لے گی مگر انہوں نے غلامی پہ آزادی کی موت کو ترجیج دی۔ یہ مثالیں ہمیشہ کے لئیے آزادی اور حریت کے پراونوں کو رستہ دکھاتی رہیں گی۔
دلا بھٹی کے دادا رائے ساندل خاں اور علاقے کے کے دوسرے قبائیل نے مغلوں کو لگان اور مالیہ یعنی ٹیکسز نہیں دیتے تھے اور بار میں مغل قافلوں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے دلا کے دادا اور باپ کو دوسروں سمیت پھانسی چڑھا کر ان کے لاشیں لٹکا دیں۔
دُلا جب بڑا ہوا تو اس نے اکبر سے اپنے باپ دادا کی موت کا بدلہ لینا چاہا اور یوں تاریخ دلا بھٹی نامی کردار کی تخلیق کر گئی ۔ دلا بھٹی نے مغلوں کے کارواں لوٹے اور مال غریبوں میں تقسیم کر دیا۔
دلا بھٹی نے مغل جرنیل کی ستم رسیدہ ایک مظلوم لڑکی کو اپنی بیٹی بنا لیا جس پہ بہت سی لوک شاعری کی گئی ہے۔ وہ بہادر آدمی تھا۔ اور دُلا بھٹی نے اپنے دادا اور باپ کی طرح ساندل بار کی جاگیر کی جاگیرداری کے بجائے بہادری کی موت کو ترجیج دی اور اپنے باپ دادا کی طرح ہمیشہ مغلوں کے ظلم و ستم کو چیلنج کیا۔
کہا جاتا ہے کہ دلا نے ایک شاہی کاروان کو لوٹا جس میں اکبر کے حرم کی کچھ عورتیں جن میں سے دو اس کی بیویاں تھیں جنھہیں چھڑوانے کے لئیے اور دلا بھٹی کو زندہ یا مردہ لانے کے لئیے دو سپہ سالاروں مرزا علاؤالدین اور ضیاؤالدین ایک لاکھ بیس ہزار فوج دے کر روانہ کیا۔ دُلا بھٹی اور اس کی چھوٹی سی فوج چنیوٹ میں کہیں تھی ۔ اس دوراں مغل فوج نے ساندلاوالہ ( موجودہ پنڈی بھٹیاں) چڑھائی کی اور بہت مذاحمت کے بعدمغل فوج دُلے بھٹی کی خواتیں جس میں اسکی ماں لدھی بھی شامل تھی اٹھانے میں کامیاب ہوگئی ۔ اسکے باوجود ایک گُجری نامی عورت جو مغل فوج کے خیموں میں گھس گئی اور اس نے مغلوں کے ایک سپہ سلار کو اپنے خنجر سے ہلاک کر دیا-جب دلے کی رشتے دار اٹھائے جانے کا علم دلا کو ہوا تو وہ بھاگم بھا واپس لوٹا۔
میں بوڑاں دلی دے کِنگرے تے پھاجڑ پا دیاں تخت لہور
مغل فوج کے مغل اور پٹھان دستوں سے لڑتے ہوئے دلا بھٹی کا بیٹا مارا گیا اور ایک وقت آیا کہ شاید دلا اور اسکے ساتھی غالب آجائیں گے کیونکہ علاقے کے سب جنگجو دلے کے ساتھ تھے ۔ مگر مغل افواج غالب آگئیں کیونکہ دُلے کا تمام اہلِ خانہ سب رشتے دار ، اسکے گھرانے کی تمام خواتیں مغلوں کے قبضے میں تھیں۔ ایک وقت مغلوں نے ہتیار ڈالنے کی شرط پہ اسکی رشتے دار خواتین کو چھوڑنے کی پیشکش کی مگر دلا بھٹی کی ماں نے چیخ کر کہا کہ “خبردار اگر تم نے ہتیار پھینکنے بزدلی دکھائی تو تمھیں اپنے بتیس دھاریں نہیں بخشوں گی“آخر کار دُلا گرفتار ہوا جیل میں ڈال دیا گیا نقش منڈی (آجکل لنڈا بازار) میں عوامی اجتماع میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔ اسکی قبر میانی صاحب قبرستان لاہور میں ہے۔
جی اسی لیئے تو کہتے ہیں ایک قوم کے باغی دوسری قوم کے ہیرو ہوتے ہیں!
گوندل صاحب
پنجاب کا ایک اور کردار ‘جگا’ بھی بڑا مشہور ہے، جس کے متعلق ایک گانا بھی گایا ابرار الحق نے، کیا اس پر بھی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟ اگر مجھے ای میل میں بھیج دیں تو میں اپنے بلاگ پر لگاوں اسکا سارا قصہ۔۔۔۔
ہم جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس کا نوحہ ہے یہ کالم !
http://ejang.jang.com.pk/1-27-2010/pic.asp?picname=08_01.gif
اور یاسر اور جاوید گوندل کا تبصرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا تبصرہ!
جاوید گوندل صاحب
دلا بھٹی کے متعلق بہت سے حقاءق میرے علم میں نہیں تھے ۔ اس تفصیلی تبصرے نے میری اس معاملے پر میری معلومات میں اضافہ کیا ہے ۔ اپ کا پیشہ پتہ نہیں کیا ہے مگر آپ اگر شعبہ تعلیم میں ہوتے تو ایک اچھے سکالر ہوتے
محترم! محمد ریاض صاحب!!
آپ نے کسی قابل سمجھا ، یہ آپ کی بڑائی ہے۔ میں ایک کاروباری فرد ہوں- ہائی ٹیک سے متعلقہ امپورٹ اور ہول سیل کاروبار کرتا ہوں۔ اس زیادہ بتانا اچھا نہیں لگتا کہ نفس پھولنے لگتا ہے۔
یاسر عمران مرزا صاحب!
بھائی صاحب آپ نے دو جملوں میں پوری کتاب کی فرمائش کر ڈالی ہے۔
جگے جٹ کے کردار کا وہ خاصہ نہیں جو پنجاب یا موجودہ پاکستان کے دوسرے بہادر لوگوں کی داستانوں کا ہے۔ مگر جگا ایک سورما بیان کیا جاتا ہے جس نے امراء اور ریاست کے جبر سے تنگ آخر ڈاکوؤں کی زندگی اپنائی اور لوٹ مار کے سامان اوت سونے زیور سے علاقے کے غریب لوگوں کی مدد کی ۔ جگے کی کہانی ایک اسیے فرد کی کہانی ہے جسے ڈاکو بننے پہ مجبور کردیا گیا۔ اور اسطرح کی کہانیاں پاکستان میں آج بھی عام ملتی ہیں۔ مسلمان اسے مسلمان سمجھ کر اس کی داستان گاتے ہیں، جن میں ابرارلحق، عالم لوہارمرحوم ، اسکا بیٹا عارف لوہار ، شوکت علی وغیرہ سبھی نے اسے گایا ہے ۔ جبکہ سکھ گانے والوں میں سے گورداس مان وغیرہ نے اسے خوب گایا ہے۔
جگا انیس سو ایک یا انیس دو میں موضع بُرج سنگھ والا ، تحصیل چنیوٹ ضلع قصور میں ایک سکھ جاٹ خاندان میں پیدا ہوا ، اسکا پورا نام جگت سنگھ تھا۔ باپ کا نام مکھن سنگھ جو اسکے جگت سنگھ (جگا جٹ) کی چھوٹی عمر میں مر گیا۔جگے کی پرورش اسکے چچا رُوپ سنگھ اور ماں بھاگن نے کی۔
جگے کے پیدا ہونے سے پہلے اسکے باپ مکھن سنگھ اور بھاگن کے چہ بچے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے ۔ کہتے ہیں کہ مکھن سنگھ اور بھاگن قریب کے گاؤں میں ایک سکھ بزرگ سوڈھی اندر سنگھ کے پاس گئے اور منت مراد و نذر نیاز پیش کی۔ سوڈھی سنگھ نے انھیں ایک کالا بکرا خریدنے کی ہدایت کی اور کہا کہ نوازئیدہ بچے کو اسکی پیدائیش پہ کالے بکرے سے چھوا جائے۔ اور اسکا نام ج سے مت رکھنا ۔ مگر اسکا نام جگت سنگھ رکھنے کی وجہ سے کچھ دن بعد وہ کالا بکرا بیمار ہو گیااور مر گیا ۔ بہر حال یہ سکھوں کے عقیدے اور داستان گویوں کی باتیں ہیں۔جن کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔مگر انھیں بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی ہمارے گلوکار ایک ایسے سورما کی داستان گاتے ہیں، جبکہ جگے کے بارے میںہمارے گلو کاروں کو شاید جگے جٹ کے سب حالات زندگی کا علم نہ ہو ۔ الغرض ،
جگا جمیا فجر دی بانگے
لوڈھے ویلے کھیڈ دا فِرے
جگہ جمیا تے ملن وداہایاں
وڈا ہوکے ڈاکے ماردا
جگے ماریا ٭لائل پور ڈاکہ
تاراں کھڑکھ گیاں
٭موجودہ فیصل آباد
ساتویں نمبر پہ جگت سنگھ یعنی جگا ہوا اور اسکے بہت لاڈ اٹھائے گئے۔جگے کی ملکیت میں دس مربع یعنی دوسو پچاس ایکڑ زمین تھیں۔اور بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا اور وہ انتہائی خود سر ہو گیا تھا۔ جگے کا باپ مکھن سنگھ مر چکا تھا۔ اور وہ اپنے چچا مکھن سنگھ اور اپنی مان بھاگن کی کی زیر نگرانی پرورش پا رہا تھا۔ ایک دن اسنے بہت سا کماد کاٹ کے گنے اپنے دوستوں میں بانٹ دئیے جس پہ اسکے چچا روپ سنگھ نے اسے خوب پیٹا اور جس پہ جگے نے رات کے وقت اپنے چچا کے کنوئیں پہ ساری ٹنڈیں کھول کر کنوئیں میں پھیک دی۔ کہتے ہیں اسکے چچا نے اسکے خلاف پولیس میں شکایت درج کروانی چاہی تو اسکے شریکوں نے اسے یاد کروایا کہ اسکا نام جگا بھی تو اسکے چچا روپ سنگھ نے رکھا تھا شریکوں کے طعنوں سے اسکا چچا روپ سنگھ پولیس میں اسکی شکائت کروانے سے باز رہا۔
جگے کے گآؤں برج سنگھ والا میں زیادہ تر مسلمان تیلی رہتے تھے جبکہ سترہ یا اٹھارہ سدھو جٹ خاندان بھی آباد تھے اور سبھی ایک دوسرے کا مذھبی احترام کرتے تھے۔ جگہ بچپن سی ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق اکھاڑے جاتا تھا اور مسلمان خاندان کا سوہن تیلی اسکے بچپن سے ہی اسکا دوست تھا اور سوہن تیلی نے جگے کا ستھ اسکی موت تک دیا اور خود بھی مارا گیا۔
اسی لئیے لوک گیت میں جگے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے۔۔
جگے جٹ دا جانگیہ پٹ دا
کلی اُتے ٹنگا رہ گیا
جگے کی شادی تلونڈی نامی گاؤں میں اندر کور سے ہوئی اور اسمیں سے جگے کی واحد اولاد ایک بیٹی گابو نام کی جس کی اسی سال کی عمر ہے اور مشرقی پنجاب مکتاثر میں لمبی کے نزدیک وان والا گاؤں میں زندہ ہے۔
انگریزی دور میں جگے کی طرح سرشت فطرت کے لوگوں کے بارے میں انگریز حکومت کے بنیادی مخبر پٹواری، نمبردار، تھانیدار ، سفید پوش، ذیلدار وغیرہ معلمات اکھٹی کرتے رہتے تھے اور انھیں کسی نہ کسی بہانے سے انگریز حکومت کی طرف سے مقدمات میں الجھا لیتے تھے تانکہ وہ بلیک میل ہو کر شرارت سے باز رہیں۔ جگہ درمیانی قامت اور مضبوط جسم کا گورے رنگ کا جوان تھا۔ ایک دن جگا پٹواری کے پاس اپنی زمینوں کا فرد لینے کے لئیے گیا اور جگا پٹواری سے عزت تکریم سے پیش نہ آیا تو پٹواری نے اسے فرد دینے سے ٹال دیا جس پہ جگے نہ اس کی دھلائی کر دی اور پٹواری ست فرد لے کر ہی ٹلا ۔ اس واقعے نے جہاں انگریز سرکار کی نظروں میں اسے شرپسند بنا دیا وہیں عام عوام نے اسے ہیرو سمجھ لیا۔
کچے پُلا تے لڑائیاں ہوئیاں
چھویاں دے گُھنڈ مڑ گئے
یہ کچا پُل جگے کے گاؤں اور اسکے سسرالی گاؤں تلونڈی کے بیچ میں تھا جسے بہاروالا نکئی اپنے استعمال میں لاتے تھے انکی رشتے داری مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سسرالی رشتے دار تھے اور بہت اکھڑ اور شیطان لوگ تھے انہوں نے ایک دن جب جگا اپنے گھوڑے پہ سوار وہاں سے گزر رہا تھا اسکے گھوڑے کو ڈانگ ماری جس سے وہ گھوڑے سمیت الٹ گیا ۔ نکئی پانچ یا چھ بھائی تھے جب کہ جگا اکیلا تھا مگر اسکے باوجود جگے نے ان کی خوب درگت بنائی ۔ جس کی وجہ سے بعد میں نکئی لاہور منتقل ہو گئے۔
جگا کی مشہور ہونے کی وجہ کل مؤکل جیلدار کی طرف سے جھوٹے مقدمے میں جگے کو چار سال کے لئیے جیل بیجھنا تھا جگہ جب رہا ہوکر واپس اپنے گاؤں برج پہنچا تو ایک دن بھائی پھیرو میں وہی جیلدار اور انسپکٹر اصغر علی جو آپس میں دوست تھے انھہوں نے جگے کو تھانے لے جانا چاہا تو جگے نے انکار کردیا اور مزاحمت کی جس میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں سے جس میں کاواں گاؤں کے قہر سنگھ اور محل سنگھ اور ججال گاؤں کا دُلا سنگھ کے نام نمایاں ہیں۔ بعد میں دُلا سنگھ نے جگے کو اپنا دھرم پُتر بنا لیا ۔ کچھ عرصے بعد دلا سنگھ اور اسکے خاندان نے اپنے وقت کامشہور قتل عام کیا جس میں اٹھ افراد قتل ہوئے جس کی پاداش میں دلا سنگھ وغیرہ پھانسی پہ لٹکا دئیے گئے۔۔ اس دن اس نے تھانے جانے سے انکار اور مزاحمت کرنے کی وجہ سے ڈاکؤں کی زندگی اپنا لی جس کا آغاز ایک سپاہی کی سرکاری رائفل اور اچارکے گاؤں کے آتما سنگھ کی رائفل چھین کر کیا۔
جگے کا پہلا ڈاکہ گھمیاری گاؤں کے کچھ سناروں کے گھر تھا۔ گھمیاری قصور اور لاہور اضلاع کے سنگم پہ واقع ہے۔ جگے ساتھ اس ڈاکے میں جھنڈا سنگھ بقمام نرمل گاؤں اور ٹھاکر سنگھ منڈیالی شامل تھے۔ انہوں نے سنیاروں کے گھروں سے سارا سونا لوٹ لیا اور غریب لوگوں کو سود اور بیاج پہ دئیے گئے روپوؤں کے تمام بہی کھاتے آگ میں جلا دئیے۔ جس سو غریب لوگوں کی جان سودر در سود سے چھوٹی ۔ بعد میں انھہوں نے جھنڈا سنگھ کے کوئیں پہ سونے کا حصہ کیا جس کا وزن آدھ سیر تقریبا تھا۔ اس نے نئے ساتھی اپنے ساتھ ملائے جن میں بانٹا سنگھ ، جگے کے بچپن کا مسلمان دوست سوہنا تیلی ، لالُو نائی جو ایک آنکھ سے کانا تھا مگر کھانے پکانے میں ماہر تھا ، بھولو اور باوا شامل تھے ۔
جگا کسی جگہ ڈاکہ ڈالنے سے قبل پولیس کو پیغام بیھج دیا کرتا کہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے جارہا ہے تانکہ بعد میں پولیس بے گناہ لوگوں کو تنگ نہ کرے۔
جگا انسپکٹر اصغر علی کا کچھ نا بگاڑ سکا وہ جگے کی موت تک اسی تھانے میں ڈیوٹی پہ رہا ۔ جگے کو علم ھو گیا تھا کہ ایک ڈاکو کی طرح اسکی زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اس نے کاواں نامی گاؤں کے اپنے ساتی خیر سنگھ کے سب سے چھوٹے بھائی کے بیٹے کے ساتھ منگنی کر دی اور سارا سونا اور جواہرات وغیرہ اسے دان کر دئیے۔
ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سدھیر کے گاؤں میں ملنگی کے گھر گیا اور اسنے لالو نائی کو سب کے لئیے کھانا بناے کا کہا لالو نائی کا گآؤں ۔لاکھو کے۔ نذدیک ہی تھا لالو نائی نے اپنے پانچ بھائیوں سے کہا کہ وہ شراب اور کھانا لے کر پہنچ جائیں۔ لالو اور اسکے بھائیوں نے شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا جب کہ ملنگی کی ماں اسی طرح خوش تھی کہ جس طرح دوسال کے بعد اسکا بیٹا ملنگی لوٹ آیا ہو ۔ جگے کا جگری دوست سوہنا تیلی اپنے دوستوں کو ملنے نزدیک کہیں گیا ہوا تھا۔ جگے اور بانٹے نے کھانا کھا کر خوب شراب پی شراب کے نشے میں دھت بوڑھ (بڑ) کے نیثے ایک بڑے چارپائی میں گرمیوں کی دوپہر کو لیٹے ہوئے تھے کہ لالو نائی اور اسکے بھائیوں نے ان پہ فائر کھول دیا۔ سوہنا تیلی فائروں کی آواز سن کر پلٹا اور چاہا کی لالو نائی اور اسکے بھائیوں کا مقابلہ کرے کے اسے کمر کی طرف سے فائر مار کر لالو نائی نے ہلاک کر دیا
جگا وڈیا بوڑھ دی چھاویں
نو من ریت بھج گئی
پُرنا
نائیاں نے وڈ چھڈیا
جگا سورما
جگے کی موت نے سارے علاقے کو صدمے اور ھراس میں لے لیا۔ لالو نائی کو حکومت نے دس مربعے زمین اور ایک گھوڑی انعام میں دی ۔ کچھ وقت بعد لالو نائی کسی دوسرے مقدمے مین جیل گیا تو وہاں بند قیدیوں نے اسے اسقدر پٹائی کی کہ وہ وہیں مر گیا۔
جگہ صرف انتیس سال زندہ رہا اور اسکے ڈاکؤوں بنے کی زندگی محض تین ماہ پہ محیط ہے۔
ساری تفصل اس لئیے بیان کر دی ہے کہ جگا پاکستان کے گویوں کا ہیرو کیسے بن گیا ؟ کیا وہ اس کا حقدار تھا ؟ یا نہیں۔؟ یہ فیصلہ آپ سب پہ چھوڑتا ہوں۔
نوٹ۔ جملہ تفضیلات میرے مسلمان ہونے اور جگے کے سکھ ہونے کی وجہ سے بدلی نہیں جاسکتیں اسمیں کوئی مذھبی تعصب شامل نہیں مشرقی پنجاب کے سکھ بھی انھیں کم و بیش یوں ہی بیان کرتے ہیں۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
جناب گوندل صاحب، بہت بہت شکریہ اس تفصیلی تحریر کے لیے، اس موضوع کے متعلق میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔۔۔ مہربانی
بہت خوب جاوید گوندل صاحب
میرے ننھیال چونیاں کے نزدیک رہتے ہیں اور بچپن میں گویوں کو تھیٹر میں جگے کے قصے گاتے سنا تھا مگر اس قدر تفصیل سے معلومات پہلی دفعہ ملی ہیں
Leave A Reply