ہم اپنے بلاگ پرمختلف موضوعات پر سروے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا تازہ سروے صدر پرویز مشرف کے مواخذے کے متعلق تھا۔
آپ نتائج سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صدر مشرف اس وقت عوام میں کتنے مقبول ہیں۔ ہمارے سروے میں گنے چنے افراد حصہ لیتے ہیں پھر بھی اس کے نتائج بین الاقوامی سروے کمپنی کے نتائج سے بہت ملتے جلتے ہیں۔
اتنا کچھ جان لینے کے باوجود ایسا شخص جس نے عوام کے رد کرنے پر استعفے کا اعلان کر چکا ہو اگر مستعفی نہ ہو تو پھر یا عوام بے بس ہیں یا پھر وہ بہت ہی ڈھیٹ شخص ہے۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ نہ وہ اپنی مرضی سے آئے تھے اور نہ اپنی مرضی سے صدارتی محل میں تنہا بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو لوگ انہیں لائے تھے وہی انہیں جانے کی اجازت دیں گے تو وہ جائیں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ لانے والے لوگ جانے والے کو عزت سے جانے کا موقع کم ہی دیں گے۔ وہ ان کا مزید خون چوسیں گے اور پھر گنے کے پھوک کی طرح ایک دن اگل دیں گے۔
عوام کی بے بسی بھی قابل دید ہے۔ عوام صدر مشرف کو پسند نہیں کرتے مگر انہیں ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں مگر اف تک نہیں کر رہے۔ ہم سوچ رہے تھے پچھلے چھ ماہ میں تنخواہ دار طبقے کا کیا حال ہو چکا ہو گا۔ تنخواہیں بیس فیصد بڑھیں مگر مہنگائی بڑھی دو سو فیصد۔ اتنی مہنگائی کے باوجود عوام کی چیخیں نہیں نکل رہیں یہ حیرانی کی بات ہے۔
یہ سچ ہے جب تک عوام بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے حکمران اپنی مرضی کرتے رہیں گے بلکہ یہ کہنا سچ ہو گا کہ غیروں کے مفادات کا خيال رکھتے رہیں گے چاہے اس کے بدلے لوگوں کو بیچنا ہی کیوں نہ پڑے۔
1 user commented in " بے بس قوم بمقابلہ ڈھیٹ حکمران "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہمارے ایک دوست نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کے حوالے سے ایک شعر کہا تھا:
بے غیرتی کا بھلا ہو غالب
ورنہ لوگ ڈوب مر گئے ہوتے!
عوام کے بارے میں کیا کہیں کہ جوتیاں مارنے والے افراد کے بڑھانے کا مطالبہ ہی کر سکتے ہیں (واقعہ آپ نے سنا ہوگا)
Leave A Reply