وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران سفیرِ پاکستان جناب حسین حقانی حسب معمول غصے میں آگئے اور صحافیوں سے الجھ پڑے۔ غصے میں انہوں نے یہاں تک کہ دیا کہ آئندہ تقریبات میں صحافیوں کو دعوت دینے پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔

ہمارے ایک جاننے والے حسین حقانی کے تب سے جاننے والے ہیں جب وہ امریکہ آکر سیٹل ہو گئےاور امریکی اخبارات میں لکھنے کیساتھ ساتھ انہوں نے یونیورسٹیوں میں پڑہانا بھی شروع کر دیا۔ جب جمہوری حکومت آئی تو انہوں نے ہمارے جاننے والے کو کہا تھا کہ انہوں نے واشنگٹن میں اتنے روابط پیدا کر لیے ہیں کہ اب انہیں آگے بڑہنے سے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکے گا۔ ان کی اس بڑہک کی تصدیق ان کے امریکہ میں پاکستانی سفیر بننے پر ہو گئی۔

ایک پنجابی گانے کی طرح ” توں نئیں بولدی تیرے اندر تیرا یار بولدا” ہمارے سفیر حقانی صاحب نے صحافیوں کو ڈانٹ پلا کر ثابت کر دیا کہ اب ان کے رابطے اوپر تک ہیں۔

ایک اخبار نویس شکیل میاں نے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی اور بیگناہ شہریوں کی ہلاکت پر جب سوال کیا تو حسین حقانی نے جواب دیا “کیا وہ آپ کے آدمی تھے؟ صدام بھی ایسی باتیں کرتا تھا، اب وہ کہاں ہے؟”۔

امریکہ کی وکالت پر صحافی نے جب سوال کیا “آپ کیا امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہیں یا امریکہ کے؟” تو اس پر بھی سفیر غصے میں آگئے۔

ایک اور صحافی نے یہ سوال اٹھایا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود کی تقریب میں حسین حقانی نے پاکستانی جھنڈے کیساتھ امریکی جھنڈے کا بیج اپنے کوٹ پر کیوں لگایا ہوا تھا تو پاس کھڑے ایک سفارتکار نے کہا “اس کے پاس دوہری شہریت ہے اور یہ دونوں ملکوں کے وفادار ہیں”۔

ایک موقع پر تو وزیراطلاعات شیریں رحمان بھی حسین حقانی کے رنگ میں رنگ گئیں اور وہ صحافیوں سے الجھ پڑیں اور انہیں تلقین کی کہ وہ پریس بریفنگ کے آداب سیکھیں۔ ایک مقامی اخبار کے نمائندے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا “وہ حکومت کا موقف بتانے آئی ہیں یا سکول کی ہیڈمسٹریس ہیں”۔ وزیراطلاعات کا صحیح نام شیری ہے یا شیريں کی بحث میں جائے بغير موقع کی مناسبت سے ہمیں غالب کا شعر یاد آ رہا ہے۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا

سفیر پاکستان حسین حقانی سے ہماری یہی درخواست ہے کہ وہ پلیز زمین پر ہی رہیں اتنی بلندیوں پر پرواز نہ کریں جہاں سے گرنے کے بعد انسان کی ہڈیاں تک نہیں ملتیں۔ سفارت کار کا بنیادی کام ہی گفت و شنید سے کام نکالنا ہوتا ہے اور اگر حقانی صاحب کو افسری کا زیادہ ہی شوق تھا تو پھر انہیں سول سروس میں چلے جانا چاہیے تھا۔