روزنامہ جنگ کے سینئر ایڈیٹر،میر خلیل الرحمن سوسائٹی کے سرپرست ،مستند کالم نگار اوردانشور ارشاداحمد حقانی آج صبح لاہور میں انتقال کرگئے۔ ارشاد حقانی روزنامہ جنگ لاہورکے بانیوں میں شامل تھے اور ان کے کالم حرف تمنا کو سیاسی اوردانشورحلقوں اورقارئین میں انتہائی پذیرائی حاصل تھی ۔انہیں انتہائی عقیدت اوراحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا اورمقتدرسیاسی حلقے ان کے کالم سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ارشاد حقانی ابتدا میں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے،وہ پچاس کی دہائی کی ابتدا میں جماعت اسلامی کے روزنامہ تسنیم کے مدیر بھی رہے ۔جماعت اسلامی کے ماچھی گوٹھ میں اجتماع کے بعدوہ امین احسن اصلاحی گروپ سے وابستہ ہوگئے۔مرحوم اسلامیہ کالج قصورکے پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ 1981میں لاہور سے روزنامہ جنگ کی اشاعت کے بعد بطورکالم نگاروابستہ ہوگئے ۔ 1993 میں وہ نگران حکومت میں تین ماہ کے لئے وفاقی وزیراطلاعات ونشریات بھی رہے۔
ہمارا خیال ہے کہ وہ جنگ اخبار سے پہلے نوائے وقت میں کالم لکھا کرتے تھے۔ مگر بعد میں جنگ کی مقبولیت کی وجہ سے وہ بہت سارے دوسرے مشہور کالم نویسوں کی طرح اس اخبار سے وابسطہ ہو گئے۔
ارشاد احمد حقانی کے کالم ہم سنجیدگی سے پڑھتے آئے ہیں۔ ان کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا تھا اور وہ اس کو واضح کرنے کیلیے چار پانچ قسطوں تک بھی پھیلا دیتے تھے۔ وہ شعبہ تعلیم سے وابسطہ رہے اور جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ تھے اسلیے انہیں لکھنے اور بولنے کا طریقہ آتا تھا۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے تعلیم اور ایٹمی دھماکوں پر روشنی ڈالی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کو نیک نیتی سے مشورے دیے اور ان کا آخری کالم بھی صدر زرداری کو نصیحت کے بارے میں تھا۔
ان سے اختلاف کرنے والے دنیا میں موجود ہوں گے مگر ہماری نظر میں وہ ایک مستند اور ماہر اخبار نویس تھے جن کی اپنی ایک سوچ تھی اور وہ اس پر ساری عمر کاربند رہے۔ پتہ نہیں کیوں ہمیں ان کی نگران حکومت میں شمولیت اچھی نہیں لگی تھی۔ ہم نے اپنی چند تحاریر ان کے کالموں میں چھڑی بحث میں اپناحصہ ڈالنے کیلیے لکھیں۔
وہ بلوچستان کی صورتحال پر کافی عرصے سے پریشان تھے اور انہوں نے بلوچوں کا نقطہ نظر بڑی تفصیل سے اپنے کالموں میں پیش کیا۔
اخبار جنگ کی سائٹ پر ان کے آخری دو سو کے قریب کالم پڑھے جا سکتے ہیں۔ جنگ کو چاہیے کہ وہ ان کے تمام کالم اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دے یا کتابی شکل میں چھاپ دے تا کہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ حاصل کرتی رہیں۔ خدا ان کے گناہ معاف کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
10 users commented in " ارشاد احمد حقانی مرحوم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackانا للہ و انا الیہ راجعون
حقانی صاحب عرصے سے علیل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے آخری ایام کے کالم بالکل ان کے انداز سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اللہ مرحوم کی لغزشوں کو معاف کرے۔
حق مغفرت کرے،عجب آزاد مرد تھا!
اناللہ وانا الیہ راجعون
ان سے بہت کچھ سیکھا ہے میں نے۔ ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جن کا عمل ان کے لفظ سے مطابقت رکھتا تھا۔ ان کے نظریات سے اختلاف ہوسکتا تھا لیکن اس بات سے نہیں کہ ان کے نظریات اصولوں کی محکم بنیادوں پر استوار تھے کسی وقتی، ذاتی یا مالی منفعت کی بنیاد پر نہیں۔
ہم جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس کا نوحہ ہے یہ کالم!
http://ejang.jang.com.pk/1-27-2010/pic.asp?picname=08_01.gif
کسی مسلمان بلکہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اچھے پہلووں نمایاں کرنے چاہیے۔ لیکن جناب ارشاد احمد حقانی صاحب چونکہ ایک فرد نہیں بلکہ ادارہ تھے اس لیے ان کے بارے میں صحیح رائے کا اظہار کرنا واجب ہے۔
حقانی صاحب جنگ میں اداریہ لکھتے تھے‘ جس دن حقانی صاحب کا لکھا ہوا اداریہ حکومت کے خلاف ہوتا ‘اسی دن اسی ہی صفحے پر ان کا کالم کچھ اور بتاتا۔ اسی طرح اداریہ حکومت کے حق میں ہوتا تو حقانی صاحب کا کالم حکومت کے خلاف دلائل سے بھرا ہوتا۔ حقانی صاحب کے مثبت پہلو میں ان کا علم ‘ اور ان کا اسلوب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ایک دفعہ وہ جیو ٹی وی کے پروگرام ’’پچاس‘‘ منٹ میں شریک تھے ‘ اس پروگرام میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی پیشن گوئی کے لیے لاہور سے مدعو کیے گئے ایک نجومی کو حقانی صاحب نہ ڈانٹ پلادی کہ سیاست کا تجزیہ ٹھوس بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کا کہ پروگرام کا یہ حصہ نشر ہوسکا تھا یا نہیں تاہم ریکارڈنگ کے وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
حقانی صاحب عالم وفاضل آدمی تھے کسی کے الزام کا جواب نہ دیتے ۔ اتنے زیادہ معلومات رکھنے والا آدمی کسی نہ کسی طریقے اچھا خاصا جواب دے دیتا تاہم حقانی صاحب ان چکروں میں نہ پڑتے ۔ ان پر جو الزام لگائے گئے ان کی عکاسی ان کے انتقال پر کراچی کے ایک سینئر صحافیوں کے ان تبصروں سے ہوتی ہے۔
ایک صحافی نے فرمایا ’’حقانی صاحب کی اللہ مغفرت کرے تاہم یہ حقیقت ہے کہ وہ صحافت میں نظریہ ضرورت کے بانیوں میں سے ایک تھے‘‘ ایک دوسرے صحافی نے بہت سخت تبصرہ کرکے ان کو صحافت کے بازار حسن کا قیمتی اثاثہ قرار دیا۔ اس سے ملتا جلتا تبصرہ بھٹو صاحب نے ایک تقریب میں اس اخبار کے مالک کے بارے میں کیا تھا جس اخبار کے حقانی صاحب ملازم رہے۔
اللہ تعالیٰ حقانی صاحب کی مغفرت فرمائے ، ان کے گناہوں سے صرف نظر کرکے نیکیوں کو قبول فرمائے۔ آمین
اللہ ان کی مغفرت فرمائے
ان کی تصانیف اور کالم کی وجہ سے کافی سیاسی معلومات رہا کرتی تھیں
ورنہ ہم تو کورے ہی تھے
ان کی کمی محسوس ہو گی جب بھی جنگ اخبار کھولیں گے
تلخابہ یہ الفاظ حقانی صاحب کے بارے میں یقینا کسی نون لیگ کے چاہنے والے صحافی نے ہی کہے ہوں گے!
مجھے تو ابھی کل واپسی پر حقانی صاحب کی وفا ت کے بارے مین پتہ چلا
اور حقیقتاً مجھے بہت افسوس ہوا
حقانی صاحب وہ شخصیت تھے جب کو میں صحافت میں آئیڈیلائز کرتا ہوں
ایک ایسا بندہ جس کی ہر بات منطقی ہوتی تھی
اس کے ساتھ ساتھ میں ابو شامل کے تبصرے سے بھی متفق ہوں
ہم ایک قابل علمی شخصیت سے محروم ہوگے-
Leave A Reply