خوشامد پسندي انسان کي ايک بنيادي کمزوري رہي ہے۔ اسي لۓ ابھي تک کام کاج ميں بھي آپ کا باس آپ کے ہر کام کي تعريف ضرور کرے گا چاہے اندر سے خار کھاتا ہو۔ يہ کاميابي کے اصولوں ميں سے ايک اصول بھي ہے کہ آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کے کارناموں کو اجاگر کريں اور ان کي تعريف کريں۔
ليکن يہ خوشامد پسندي اکثر تباہ کن بھي ثابت ہوتي ہے۔ ہميں ياد ہے کہ عرصے سے يہ خوشام پسند لوگوں کو چکما بھي ديتے آۓ ہيں۔ کہيں بھي چھوٹي سي تقريب ہو آپ سے کہيں گے کہ انہيں صاحبِ صدر بنائيں۔ پھر اس تقريب ميں آپ کے کلب يا تنظيم کي تعريف کے بعد امداد کا اعلان کرديں گے اور دادبھي وصول کرليں گے۔ ليکن جب آپ امداد کي رقم لينے بعد ميں ان کے پاس جائيں گے تو ٹال ديں گے۔ اکثر ايسا ہوتا ہے کہ صاحب صدر جلسہ ميں حاضرين کے سامنے امدادي چيک پيش کرتے ہيں جو کبھي کيش نہيں ہوپاتا۔
يہ عادت بعد ميں پھيلتے پھليتے قومي مرض بن گئ اور ہمارے بڑے بڑے سياستدان اور وزرا بھي اس کي لپيٹ ميں آگۓ۔ وہ جلسہ ميں آتے، شہر کي ترقي کيلۓ نعروں کي گونج ميں امداد کا اعلان کرتے اور پھر اگلے اليکشن تک غائب ہوجاتے۔ بعد ميں نہ امداد آتي اور نہ وہ منصوبہ شروع ہو پاتا۔ يہي کام پھر ملک کے سربراہ نے شروع کرديا۔ نيوز کانفرنس ميں بڑے بڑے مصوبوں کا اعلان کيا ميڈيا ميں خبر لگوائي اور اس کے بعد اس منصوبے کي خبر تک نہ لي۔
اب يہ مرض جو علاقائي سطح سے شروع ہوا تھا عالمي ليول تک پھيل چکا ہے۔ جہاں کہيں آفت آتي ہے وہاں امدادي کاروائياں شروع ہوجاتي ہيں۔ بڑے بڑے ملک ميڈيا کے سامنے اپني ٹيميں متاثرہ علاقے ميں بھيجتے ہيں مگر پھر کچھ دنوں بعد ميڈيا سے آنکھيں چرا کر کام مکمل کۓ بغير واپس چلے جاتے ہيں۔ اسي طرح ذونرز کانفرنسيں ہوتي ہيں ترقي يافتہ ملک بڑي بڑي امدادي رقوم کا اعلان کرتے ہيں اور ميڈيا کوريج ليتے ہيں۔ اس کے بعد امداد لينے والے ان کے پيچھے پيچھے ہوتے ہيں اور وہ آگے آگے۔ بعض اوقات تو ان کي اعلان شدہ امداد قرضہ ميں ڈھل جاتي ہے اور کسي کو کانوں کان خبر نہيں ہوتي۔ خبر کرنے والے بھي بے ايمان حکمران ہوتے ہيں اور وہ خبر کرنے کي بجاۓ قرضہ کي رقم اپنےذاتي بنک اکاؤنٹ ميں جمع کرا ليتے ہيں اور بعد ميں ان کي قوم يہ قرض اتارتي رہتي ہے۔
سب سے بڑي جمہوريت اور عالمي طاقت امريکہ کي مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نے اقوامِ متحدہ کو امداد کا وعدہ کيا ہوا ہے اور وہ يہ رقم ادا نہيں کر رہا۔ يہ غير ادا شدہ رقم اب بہت بڑي ہوچکي ہے اور امريکہ اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے ۔ کبھي کبھار جب امريکہ نے اقوامِ متحدہ سے کام لينا ہوتا ہے تو اس کو اپني ہي روکي ہوئي امداد ميں سے کچھ حصّہ رشوت کے طور پر دے کر کام نکلوا ليتا ہے۔
اللہ خير کرے کہ جو وعدے اب اس ڈونرز کانفرنس ميں بڑے بڑے امير کبير ملکوں نے کۓ ہيں وہ ان کا پاس کريں اور امدادي رقم بروقت مہيا کرديں۔ اميد ہے يہ ساري رقم امدادي ہي رہے گي اور قرضے ميں نہيں ڈھل جاۓ گي۔
اللہ سے يہ بھي دعا ہے کہ وہ ہماري حکومت کو بےايماني سے بچاۓ اور اس کو اپنے عوام کي خلوص سے خدمت کرنے کي توفيق دے۔ يہ بھي دعا ہے کہ وہ ہمارے وزيروں جو اب خيرات کا مال بھي کھاتے ہوۓ نہيں جھجکتےکو زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کي نيک نيتي سے امداد کرنے کي ہمت عطا فرماۓ۔
1 user commented in " ڈونرز کانفرنس اور خوشامدي انسان "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply