آخرکار حکومت نے ہار مان ہي لي اور وزيرِاعظم نے زلزلہ زدگان کي بحالي کي ديکھ بھال کيلۓ پارليماني کميٹي کے قيام کا اعلان کر ہي ديا۔ اس کميٹي ميں آدھے حکومت کے اور آدھے حزبِ اختلاف کے ممبرانِ پارليمنٹ ہوں گے۔ اس کميٹي کے سربراہ وزيرِاعظم خود ہوں گے۔
اب حزبِ اختلاف پر منحصر ہے کہ وہ اس کميٹي ميں شرکت کرتي ہے کہ نہيں۔ يہ فيصلہ حزبِ اختلاف کل اپنے اجلاس ميں کرے گي۔اس اجلاس ميں حزبِ اختلاف کيلۓ سب سے بڑا معاملہ حکومت کي نيت پر يقين کرنے کا ہوگا۔ اگر حزبِ اختلاف کو وزيرِاعظم کي زبان پر يقين آگياکہ حکومت واقعي اس کميٹي کے بارے ميں سنجيدہ ہے اور وہ بحالي کے سارے اخراجات کا حساب کتاب کميٹي کے سامنے پيش کرے گي تو وہ اس پارليماني کميٹي ميں شرکت کا فيصلہ کرلےگي وگرنہ پہلے کي طرح حکومت پر شک کرتے ہوۓ اس کميٹي ميں شرکت سے انکار کر دے گي۔
جو سب سے بڑا معاملہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درميان ہو گا وہ اس کميٹي کے اختيارات کا ہوگا۔ اگر حکومت نے اس کميٹي کو بحالي کے اخراجات کے آڈٹ کے اختيارات نہ ديۓ تو پھر حزبِ اختلاف سمجھے گي کہ حکومت نے خانہ پري کيلۓ يہ کميٹي بنائي ہے۔ حزبِ اختلاف حکومت سے اتنے سارے دھوکے کھا چکي ہے کہ وہ اب بہت سارے تحفضات کے ساتھ حکومت سے ڈيل کرے گي۔
ہمارے خيال ميں حکومت کو چاہۓ کہ وہ اس کميٹي کو عملي طور پر بااختيار بناۓ اور بحالي کے سسٹم کو شفاف رکھے وگرنہ تاريخ اس ناانصافي پر حکومت کے سينے پر ايک اور داغ چھوڑ جاۓ گي۔ حزبِ اختلاف کو بھي چاہۓ کہ وہ اس کميٹي ميں شامل ہونے سے پہلے حکومت سے کلي طور پر ڈيل کرلے تاکہ اسے درميان ميں کميٹي سے عليحدہ نہ ہونا پڑے۔ اگر حزبِ اختلاف حکومت کے فراہم کردہ کميٹي کے اختيارات پر اس کميٹي ميں شامل ہو بھي جاۓ تو بھي ملک کے مفاد ميں ہوگا کيونکہ بعد ميں حزبِ اختلاف حکومت کي ناانصافيوں کو افشاکر کے اپني کارکردگي دکھا سکتي ہے۔
ہمارا چونکہ اس حکومت پر شروع سے ہي اعتماد نہيں ہے اور ہمارا يقين ہے کہ يہ حکومت چوروں کا ايک ٹولہ ہے اس لۓ دل ماننے کو تيارہي نہيں کہ زلزلہ زدگان کي بحالي کا سارا سسٹم فول پروف ہوگا اور حکومت کے لوگ اس ميں گھپلا نہيں کريں گے۔ حزبِ اختلاف ان گھپلوں کو مکمل طور پر تو نہ روک سکتي مگر حکومت کو ٹف ٹائم دے کر ان گھپلوں کو محدود کر سکتي ہے۔