ہماري گلي ميں ايک خوشحال خاندان بڑے اچھےدن گزار رہا تھا۔ اکبر اپنے والد کے ساتھ لکڑي کا کاروبار کرتا تھا ۔ اکبر کي ماں فوت ہو چکي تھي اور اس کا اور کوئي بہن بھائي نہيں تھا۔  ايک دن اس کو کيا سوجھي کہ اپنا کاروبار سميٹ کر وہ کويت چلا گيا اور باپ کو اپنے بيوي بچوں کے پاس چھوڑ گيا۔ ايک دو سال جب وہ گھر نہ لوٹا تو اس کي بيوي جو چھوٹے چھوٹے دو بچوں کي ماں تھي غلط راہ پر چل پڑي۔ جب اس کے سسر نے اس کو روکنا چاہا تو اس مکار عورت نے اپنے خاوند کو خط لکھ لکھ کر اس کے کان بھرے اور اس کے خاوند نے بناں تحقيق کيۓ اپنے باپ کو گھر سے نکال ديا۔ اس کے باپ نے پيٹ پوجا کيلۓ بھيک مانگنا شروع کردي اور باہر ايک جھونپڑي بنا لي۔ اس کا بھيک مانگنے کا طريقہ بہت نرالا تھا۔ وہ ہميشہ جب بھي خيرات دينے والے کو دعائيں ديتا تو ساتھ ہي اپنے بيٹے اور اس کي بيوي کو بددعائيں بھي ضرور ديتا۔وہ يہ خواري برداشت نہ کرسکا اورجلد ہي دنيا سے کوچ کر گيا۔

اس دوران اکبر کے بچے جوان ہوگۓ اور اکبر نے اپنے اکلوتے لڑکےاور لڑکي کي ايک ساتھ شادي کردي۔ ابھي ان کي شادي کو ايک سال بھي نہ ہوا تھا کہ ايک دن اس کے بيٹے نے اپنے بہنوئي اور بيوي کو رنگے ہاتھوں بدکاري کرتے ہوۓ پکڑ ليا۔ اس نے اسي وقت دونوں کو گولي مار دي اور خود جيل چلا گيا۔

اکبر اس حادثے کے بعد پاکستان واپس آکر بيٹے کا مقدمہ لڑنے لگا۔ اس کي ساري جمع پونجي مقدمے پر خرچ ہوگئي اور وہ کوڑي کوڑي کا محتاج ہوگيا۔ اس کي لڑکي اس غربت کا مقابلہ نہ کرسکي اور اپنے باپ سے بھي بڑے شخص کے ساتھ گھر سے بھاگ گئي۔ اس صدمے نے ماں کي بھي جان لے لي اور اکبر نيم پاگل ہوگيا۔

آجکل اکبر بھيک مانگتا ہے اوراسي جھونپڑي ميں رہتا ہے جہاں کبھي اس کا باپ رہا کرتا تھا۔ وہ ہر خيرات دينے والے کويہ نصيحت ضرور کرتا ہے کہ زندگي ميں  کبھي بھي اپنے ماں باپ کو تہمت لگا کر بے گھر نہ کرنا۔