پچھلی دفعہ جب کرکٹر محمد یوسف کو ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے باہر رکھا گیا تو انہوں نے احتجاجاً آئی سی ایل جوائن کر لی۔ اس وقت کی ٹیم مینجمنٹ نے محمد یوسف سے دوبارہ بات کی اور انہیں اس شرط پر واپس پاکستان ٹيم میں لے آئے کہ وہ ان کا کیس آئی سی ایل کیساتھ لڑیں گے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا اور اب پتہ نہیں پی سی بی اور محمد یوسف کے درمیان کیا اختلاف پیدا ہوا کہ انہوں نے انڈیا واپس جا کر آئی سی ایل دوبارہ جوائن کرلی۔
ہو سکتا ہے پی سی بی نے وعدے کے مطابق محمد یوسف کا کیس آئی سی ایل کیساتھ لڑنے سے انکار کر دیا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئی سی ایل معاہدے کی خلاف ورزی پر اتنا معاوضہ مانگ رہی ہو جو پی سی بی نے دینے سے انکار کر دیا ہو اور محمد یوسف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ہو کہ وہ آئی سی ایل جوائن کر لے۔
محمد یوسف نے آئی سی ایل جوائن کر کے اپنے کیریئر کو داؤ پر لگا لیا ہے۔ ہاں اگر مستقبل قریب میں آئی سی سی والے آئی سی ایل پر سے پابندی اٹھا لیں تو اور بات ہے جس کا امکان کم نظر آتا ہے۔
بعض اوقات جلدی میں کئے گئے فیصلے کتنے نقصان دہ ہو سکتے ہیں اس بات کا اندازہ ہم محمد یوسف کی مثال سے لگا سکتے ہیں۔ محمد یوسف جیسے مذہبی آدمی سے پہلے تو ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آئی سی ایل سے معاہدہ کر کے مکر جائیں گے اور دوسرے جب وہ پی سی بی کے جھانسے میں آ گئے تو پھر واپس لوٹ گئے۔ لگتا ہے پی سی بی نے محمد یوسف کو ان کی جلد بازی کی سزا دی ہے۔ پہلے آئی سی ایل اور بعد میں پی سی بی سے معاہدہ توڑنے کا جواز محمد یوسف کے پاس ہو گا مگر دونوں دفعہ ان کی شخصیت مجروح ہوئی ہے۔
اصل کہانی کیا ہے یہ پی سی بی والوں کو معلوم ہو گی یا محمد یوسف اس راز سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہر حال جو ہوا دونوں فریقین کیلیے برا ہوا۔ ایک طرف محمد یوسف کا کیریئر خطرے میں پڑ گیا اور دوسری طرف پی سی بی ایک اچھے کھلاڑی سے محروم ہو گیا۔ ہم پہلے بھی یہاں یہ درخواست کر چکے ہیں اور دوبارہ درخواست کرتے ہیں کہ آئی سی سی کو آئی سی ایل پر لگائی گئی پابندی ہٹا دینی چاہیے۔
13 users commented in " کرکٹر محمد یوسف کا مستقبل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپی سی بی نے پہلے بھی محمد یوسف کے ساتھ ۔۔۔ کی تھی اور اب بھی۔ سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک محمد یوسف اور آئی سی ایل کے ڈسپیوٹ کی پراپر پروسیڈنگز سٹارٹ نہیں ہوئیں مزید یہ کہ ایک ایسے گروپ کی پی سی بی پر اجارہ داری کے بعد جو نسیم اشرف کی کافی ساری پالیسیوں کو جاری رکھنے کے علاوہ جمہوری حکومت اور اسکی بیورو کریسی کی خوشی کے لئے سفارش کو بنیاد بنانے والے ہیں۔ محمد یوسف کا یہ فیصلہ مجھے تو بالکل بر وقت اور عقلمندانہ لگا ہے۔ مزید یہ کہ محمد یوسف یا آئی سی ایل کھیلنے والے کسی کھلاڑی نے پاکستان کے لئے کھیلنے سے انکار نہیں کیا۔ نا کھلانے والی پالیسی ہمارے بورڈ کی ہے۔ اور یہ کرنے کے لئے ان پر آئی سی سی کا دباؤ بھی نہیں۔وجہ صرف بورڈ کی ذاتی پسند اور ضد ہے
پہلے تو یہی بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی کرکٹ لیگ پر صرف اس لیے پابندی ہے کونکہ وہ انڈین کرکٹ بورڈ کی اجارہ داری کے کے لیے ایک چیلنج ہے۔ پاکستانی کرکٹ بورڈ نے شعیب ایکٹر کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کیے لیکن محمد یوسف جیسے با صلاحیت کرکٹر کے کیس میں غفلت برتی۔ دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کے کھلاڑیوں سے بھارتی بورڈ تو فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن پاکستانی کرکٹرز کو انکے تجربے اور صلاحیتوں سے محروم کردیا گیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو چار سال کے بعد کرکٹ کا حشر بھی ہاکی جیسا ہونے جارہا ہے۔
راشد کامران ہمیں ہربارتمہاری اصلاح کرنی پڑتی ہے ایک مسلمان کا نام بگاڑنااسلام کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے شعیب ایکٹر نہیں شعیب اختر ہوتا ھے …..
ارے……
میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ…….خیر قادیانی لوگ کیوں ماننےلگےاسلام کو
طفل صاحب
آپ ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور دوسرے کو اصلاح کا موقع ہی نہیںدیتے۔ مثال کے طور پر راشد صاحب نے اختر کو ایکٹر جان بوجھ کر لکھا ہو گا تا کہ وہ شعیب کی شخصیت کے ایک پہلو کو اجاگر کر سکیں یا پھر ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔
اگر آپ یہ قادیانی کی رٹ چھوڑ دیں تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ اب کہیں ہمیں بھی قادیانی نہ کہنا شروع کر دینا۔
افضل صاحب آپ نے بالکل درست کہا۔۔ شعیب اختر کو دراصل انگریز اور آسٹریلین کمنٹیٹر عموما “شعیب ایکٹر“ کہتے ہیں اور شعیب اختر دو تین اوور کرانے کے بعد کھیل میں ایکٹنگ کرتا دکھائی دیتا ہے اسی مناسبت سے ایکٹر کہا تھا۔
طفل صاحب نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے جس کے لیے نہایت ممنون ہوں امید ہے ایسے ہی پورے معاشرے کی اصلاح فرماتے رہیں گے آپ ان کو انکا کام کرنے دیں۔
دراصل ملا کے دشمنوں سے مجھے بغض اور راشد کوملا سے اور ملا سے بغض قادیانی عیسائیوں اور یہودیوں کے علاوہ اور کوئ نہیں رکھتا ایسے لوگ میرے نزدیک جینے حق دار نہیں افضل صاحب معذرت چاہونگا آئندہ کے لیۓ اگر میری باتوں سے کسی کا دل دکھا اگر کوئ قادیانی عقیدے رکھے قادیانی ذھنیت اجاگرہو تو اسے قادیانی نہیں تو کیا مسلمان کہا جائیگا
راشد صاحب ہم بھی یہی کہ رہے ایک اسلا م سے بغض رکھنے والاکافر کمنٹیٹر تو ھاشم عملہ کو ٹیررسٹ کہ دیتا ہے کیونکہ ھاشم عملہ ملا ہے اور آپکے خیالات ان سے بہت میل کھاتے ہیں خیر میں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش خواہمخواہ کی معذرت چاہے ہیں
“راصل ملا کے دشمنوں سے مجھے بغض اور راشد کوملا سے اور ملا سے بغض قادیانی عیسائیوں اور یہودیوں کے علاوہ اور کوئ نہیں رکھتا ایسے لوگ میرے نزدیک جینے حق دار نہیں“
طفل بھائی کرکٹ بھی تو عیسائیوں کا ایجاد کردہ ہے اسکو کھیلنے والے ہمارے ساتھ سولی چڑھیں گے یا انکے لیے علحیدہ انتظام ہے؟
افضل صاحب طفلانہ گفتگو کو طول نہیں دینا چاہتا تھا لیکن حس مزاح کے ہاتھوں مجبور تھا اسلیے ایک تبصرہ اور سہی کے اصول پر امید ہے درگزر کریں گے۔
کیوں راشد صاحب جب بات پکڑ کی آئ تو آپ مزاح میں لے گۓخیر آپنےاپنی حقیقت کا اعتراف تو کیا
جو کوئ بھی عیسائیت یہودیت یا قادیانیت کے عقیدےاورنظریات رکھنے والا ھووہ اللہ کا دشمن ہے اور ھمارا دشمن ہے خواہ کرکٹ کھیلتا ہو یا نہ کھیلتا ہو جیسے سعید انور ھاشم عملہ جیسےلوگ کرکٹ کھیل کربھی اسلامی نظریات اور اسلامی عقیدےرکھتے ہیں اوراللہ سے ڈرتے ہیں اور آپ کرکٹر نہ ہوکر بھی یہودیت کے دلدادہ ہیں اور خداسے جنگ کو تیار ہیں
طفل تسلی بھائی آپ بھی مسلمان ہاشم آملہ کا نام بگاڑ کر ہسپتال والا “عملہ“ کر رہے ہیں۔ توفیق ہو تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔
شکریۂ ساجد مسلط قوال صاحب
عملہ سے ہماری مراد عمل والا تھی کہ وہ اسلام پر عمل کرنے والا ہے ……. اور یہ ہسپتال کا کیا مطلب ہوتا ہے طفل کےذرا علم میں اضافہ فرمائں
ویسےایک علیحدہ سے تھریڈ اس موضع پر شروع کیوں نہیں کر لیا جاتا؟
Leave A Reply