کارٹونوں کي شکل ميں توہينِ رسالت کي مہم جو يورپ نے شروع کي ہے يہ ويسے ہي ہے جيسے ايک سپر پاور کسي غريب ملک پر چڑھائي کردے۔ اب مسلمانوں ميں اتني طاقت نہيں ہے کہ وہ اپنے محبوب لیڈر کي شان ميں گستاخي پر ملکر کوئي لائحہ عمل طے کر سکيں۔ اب مسلمان نام کے مسلمان ہيں اور ان کو پرواہ نہيں کہ ان کي حکومت مسلمان ہے يا نہيں۔ ان کو يہ پرواہ ہے کہ ان کي دال روٹي کيسے چلے گي۔ اب دين کيلۓ مرمٹنے کي روايات پراني ہوچکي ہيں۔ جو چند باعمل مسلمان دنيا ميں رہ گۓ ہيں وہ بے اثر ہو چکے ہيں اور وہ وقت دور نہیں جب ان کو بھي چن چن کر ختم کر ديا جاۓ گا۔
يہ مسلمان ملکوں کي حکومتيں ہي ہيں جن کا اسلام سے دور کا بھي واسطہ نہيں ہے۔ آپ سروے کرکے ديکھ ليں ہمارے سربراہوں کو پوري نماز بھي نہيں آتي ہوگي۔ وہ کيا جانيں اپنے پيارے نبي کيلۓ جان دينا کيا ہوتا ہے۔ ان کو تو يہ فکر ہے کہ ان کي حکومت نہ چلي جاۓ يا پھر وہ جان سے نہ چلے جائيں۔
اگر مسلمان ملکوں کي حکومتيں مسلمان ہوتيں تو پھر مٹھي بھر باعمل مسلمانوں کو توڑ پھوڑ کرنے کي ضرورت پيش نہ آتي۔ ہم سمجھتے ہيں کہ باعمل مسلمان اور موجوہ حکومتيں دونوں اس توڑ پھوڑ کي ذمہ دار ہيں۔ اگر جوشیلے مسلمانوں نے عقل سے کام نہيں ليا تو حکومتوں نے بھي اپنا فرض ادا نہيں کيا۔ يہ ہميشہ ايسا ہوتا ہے کہ پہلے ہنگامہ آرائي ہوتي ہے اور پھر ہماري حکومتوں کي آنکھيں کھلتي ہيں وہ اس لۓ نہيں کہ انہيں اسلام سے لگاؤ ہوتا ہے بلکہ وہ سوچتے ہيں کہ اب اگر انہوں نے سياسي بيانات نہ ديۓ اورمزيد اقدامات نہ کۓ تو پھر ان کي حکومتيں خطرے ميں پڑ جائيں گي۔
اس قبيح حرکت کے بعد مسلمان ملکوں کي حکومتوں کو فورأ ايکشن ميں آجانا چاہۓ تھا اور احتجاج کيلۓ ايسے اقدامات کرتيں کہ ان کي رعايا مطمعًن ہوجاتي اور انہيں سڑکوں پر نکل کر اپني جانيں پيش کرنے کي ضرورت نہ پڑتي۔ مگر مسلمان ملکوں کي حکومتيں چونکہ اپنے ملکوں سے مخلص ہونے کي بجاۓ غيروں کي خوشنودي کرکے اپني حکومتيں بچانے کي فکرميں رہتي ہيں اسلۓ ان کو پرواہ نہیں ان کي رعايا کو ان کارٹونوں کي وجہ سے کتني تکليف پہنچي ہے۔
اگر مسلمان ملکوں کي حکومتيں اپني رعايا کي خير خواہ ہوتيں تو
سب سے پہلے اپنا مشترکہ اجلاس او آئي سي کے ہيڈ کوارٹر ميں بلواتيں اور وہاں پر احجاج کا لائحہ عمل طے کرتيں۔
اقوامِ متحدہ کا اجلاس بلا کر ايک قرارداد منظور کرواتيں تاکہ دوسرے ملک ان کارٹونوں کونہ چھاپ سکتے۔
ڈنمارک پر اقتصادي پابندياں لگانے کيلۓ آپس ميں کوئي طريقہً کار طے کرتيں۔ آجکل ايک آدہ ملک کي طرف سے اقتصادي بائيکاٹ کوئي اثر نہيں رکھتا۔ ہونا تو يہ چاہيۓ تھا کہ جس طرح يورپين يونين نے ڈنمارک کي حمائت میں بيان ديا ہے اسي طرح باقي مسلمان ملک بھي بائيکاٹ کرنے والے ملک کي حمائت ميں اقدامات کرتے۔
مگر يہ اميديں سب بے کار ہیں کيونکہ اب مسلمان رعايا کا اپنے ملکوں ميں کوئي عمل دخل نہيں رہا اور انہوں نے اپنے ملکوں کي غيرمسلم حکومتوں کے خلاف مداخلت کرنا ايک ناممکن کام سمجھ ليا ہے اس لۓ يہ رعايا اس قيدي کي طرح اپني باقي زندگي کے دن کاٹ رہي ہے جسے کال کوٹھڑي ميں بيڑياں پہنا کر بند کر ديا جاۓ۔
پھر پراني بات دہراۓ بغير چارہ نہيں کہ جب تک مسلمان خود باعمل نہيں ہوں گے اور پہلے اپني مسلمان حکومتيں قائم نہيں کريں گے ان کيلۓ تبديلي لانا ناممکن ہوگا۔ ہميں چاہيۓ کہ دوسروں کے خلاف آواز اٹھانے سے پہلے اپنے گھر کي خبر ليں۔۔
2 users commented in " کاش مسلمان ملکوں کي حکومتيں بھي مسلمان ہوتيں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت عمدہ
I agree with your views on Mulims as a nation. We as a Mulim nation around the globe have no direction or leadership. I agree that Prophet(PBUH) left the Deen for in the form of Quran and Sunnah but who is following it? Quran and Sunnah is not something out of this world, its the daily life, normal procedures, common sense but no one is following it, except the west.
Leave A Reply